تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

صاحبانِ فہم نثار و اعجاز

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, May 16th, 2024

تحریر : احمد ثبات قریشی الہاشمی

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ جنابِ خاتم النبیین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرور پا لو گے”۔
محترم نثار احمد کسانہ اور مکرم شیخ اعجاز احمد دونوں صاحبان اس فرمان پر الحمدللہ پورا اترتے ہیں۔محترم نثار احمد کسانہ جو کہ “پاکستان” نام کے خالق چوہدری رحمت علی(مرحوم) کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔فہم و فراست میں ایک علیحدہ ہی مقام کے حامل ہیں۔ابھی تک موصوف کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔آجکل امریکہ میں مقیم ہیں۔اپنی کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ان کی حالیہ کتاب “نثاریات” پورے تزک و احتشام کے ساتھ جلوہ فگن ہو چکی ہے۔گذشتہ روز ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے ملاقات کا حکم دیا۔راقم الحروف ان کے دیئے گئے وقت پر ان کی کتاب کے پبلشر “مثال پبلیکشنز” امیں پور بازار حاضر ہوا ابھی گفت و شنید جاری تھی کہ بزرگ تاجر راہنما اور پیکرِ صدق و وفا شیخ اعجاز احمد سے فون پر رابطہ ہو گیا۔شیخ اعجاز احمد کو جب معلوم ہوا کہ نثار احمد کسانہ صاحب اور ناچیز اکٹھے ہیں تو انہوں نے اپنے روایتی انداز میں پرخلوص دعوت دی اور کہا کہ ہم ان کے دفتر پہنچ جائیں۔ناقص و ناچیز محترم نثار احمد کسانہ کی رفاقت میں محترم شیخ اعجاز احمد کے درِ دولت پر حاضر ہوگیا۔سوچا تو تھا کہ پندرہ بیس منٹ کی ملاقات کی جائے گی مگر جب آپ کسی نیک روح کی رفاقت پاتے ہیں تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔اور یہاں تو “یک نہ شد دو شد” کے مصداق دو عطاروں کا قرب حاصل ہو گیا تھا۔ایک اپنے نام “نثار احمد” کے عین مطابق احمدِ مُرسل صل اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی محبت میں نثار اور دوسرے بھی اپنے نام “اعجاز احمد” کی عملی تصویر بنی شخصیت۔
ایسے صاحبانِ فہم کی قربت آپ کو غیر محسوس طریقے سے تخیل کی پرواز کرواتی ہے اور اپنے پاکیزہ مگر سادہ اظہار کے ذریعے آپ کے پراگندہ قلب پر ضربِ “لا الہ الا اللہ”کے وار کرتی ہے۔اور اپنی روحانی پرواز کے ساتھ آپ کے کمزور نفس کو بھی رب العالمین کی بنائی دلفریب چراگاہوں کی سیر کرواتی ہے۔ایسی چراگاہیں جہاں “سبحان اللہ” کا ورد ہر سو سنائی دیتا ہے۔جہاں پرندے”صل علیٰ نبینا صل علیٰ محمدٍ ” کے نغمے گاتے اڑان بھر رہے ہوتے ہیں۔جہاں ندیاں “اللہ اکبر” کی صدائیں بلند کیئے پیاسوں کو سیراب کرتی ہیں۔جہاں فَکر کے پھل ڈالیوں پر لٹکے “الحمدللہ” کی مہکیں بکھیر رہے ہوتے ہیں اور جہاں “لا الہ الا اللہ” کی گونج شرک کی نجاست دھو ڈالتی ہے۔
تمام تر گفتگو عشقِ الہٰی و عشقِ مصطفیٰ کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان پر رہی میں ہمیشہ کی طرح ایسے بزرگان کی موجودگی میں خاموشی کا دامن تھامے بیٹھا رہا اور اپنے میلے کشکول کو سامنے رکھ دیا۔تاکہ حکمت و دانائی کے موتیوں کو سمیٹ سکوں۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ معروف صحافی رانا حبیب بھی تشریف لے آئے اور محفل میں جان ڈالنے کے لیئے شیخ اعجاز صاحب کی مسجد کے خطیب کی آمد بھی ہو گئی۔قرآن فہمی جو آج وقت کی اہم ضرورت ہے اس پر دونوں بزرگان اور خطیب صاحب نے سیر حاصل گفتگو فرمائی اور اپنی علمی و فَکری گفتگو سے ہم جیسے کج فہم افراد کے تاریک ذہن و قلب کو فَکر کی روشنی سے نوازا
محفل کے اختتام پر محترم نثار احمد کسانہ نے اپنی حالیہ تصنیف “نثاریات” سے ہمیں نوازا۔ نثاریات اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔محترم نثار احمد کسانہ نے اپنے مختلف مضامین،شاعری،مکاشفات اور واقعات کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیا ہے۔بہت خوش قسمت ہیں وہ افراد جو اپنی زندگی میں لکھے گئے مختلف قلمی نسخوں کو ایک جامع کتاب کی شکل دے کر اپنا اثاثہ بنا لیتے ہیں۔نثاریات کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ محترم نثار احمد کسانہ نے اس میں بے وجہ بناوٹ کا مظاہرہ نہیں کیا عمومی طور پر یہ بات بہت مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی تصانیف و کتب میں صاحبِ کتاب عجز و انکساری اور خود نمائی کا میک اپ تھوپے ہوتے ہیں۔نثار احمد کسانہ نے اپنے آباء کی روایت یعنی بے دھڑک گفتگو اس کتاب میں کی ہے۔وہ کہیں اسلام کے مبلغ نظر آئے تو کہیں مدحتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغمے سناتے نظر آئے۔کہیں باعمل صوفی کا جبہ پہنے دکھے تو کہیں ماڈرن سائنس کی اہمیت پر لب کشائی کرتے نظر آئے۔کہیں انقلابی لیڈر کے روپ میں سرمایہ داروں سے پنجہ آزمائی کرتے دکھے تو کہیں صاحبانِ اقتدار کے قرب میں بیٹھے عوامی مسائل کی نشاندہی کرتے نظر آئے۔کہیں لائیلپور کی گلیوں میں چائے کے ساتھ جلیبیاں تناول کرتے دکھے تو کہیں امریکہ کے ریستورانوں میں ہائی ٹی سے محظوظ ہوتے نظر آئے۔المختصر یہ کہ انہوں نے اپنی ذات کو بناوٹ اور خود پسندی کی کسافت سے پاک رکھتے ہوئے یہ کتاب مرتب کی ہے
رب عزوجل نے حضرتِ انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور سب سے بڑی صلاحیت و انعام بعد از نبی آخر الزماں محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے علم عطا کیا ہے۔یہ وہ سرمایہ ہے جو بخیل کو کبھی میسر نہیں ہے۔یہ دولت ہمیشہ سخی طبیعت کے ہی نصیب میں ہوتی ہے۔علم کا فائدہ بھی تب ہی ممکن ہے جب اسے تحریر کرکے محفوظ کر لیا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیئے اثاثہ بنا کر عام کر دیا جائے کہ یہ ہی وہ چراغ ہے جو نئی نسلوں کے لیئے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اس محفل میں موجود تمام افراد پر رب ذوالجلال والاکرام اپنی خاص رحمتوں برکتوں و نعمتوں کا نزول فرمائے دنیا و آخرت سنوارے اور محترم نثار احمد کسانہ کی حالیہ تصنیف و دیگر قلمی خدمات کو ان کیلیئے اور ان کی اولاد کے لیئے صدقۂِ جاریہ بنائے آمین


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International