تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عباس خان کا فکری سفر (کتاب’’سچ ‘‘کے حوالے سے)

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, July 8th, 2024

حیدر قریشی(جرمنی)

عباس خان ان ادیبوں میں شامل ہیں جو اپنے فکری سفر میں فلسفہ،سائنس ،مذہب اورادب

کے سارے دیاروں سے ہوتے ہوئے اپنی نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہیں۔ان کی کتاب’’سچ‘‘ان کے ایسے ہی فکری سفرکی اب تک کی روداد ہے۔اسے پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہم فکری سطح پر ایک دوسرے سے خاصے قریب ہیں۔اس قربت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔فکری

ہم آہنگی کی بعض لہریں بھی موجود ہیں لیکن اختلاف رائے کی بہت ساری گنجائشیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ہمارے فکری قرب کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم دونوں اس دنیا اور اس کائنات کے سچ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔اور اس سفر کے دوران ہم لگ بھگ ایک جیسے ہی دیاروں سے ہوتے ہوئے اُس عظیم سچ تک پہنچنے کا جتن کر رہے ہیں۔میں بنیادی طور پر عباس خان کی کتاب’’سچ‘‘کے مطالعہ کے بعد اس پر اپنے تاثرات لکھنا چاہ رہا ہوں لیکن اس فکری سفر میں عباس خان کے ہم رکاب ہوتے ہوئے مجھے اپنے فکری سفر کے جو مقامات یاد آئے ان کا ہلکا سا ذکر بھی برسبیل تذکرہ کرتاجاؤں گا۔

’’سچ‘‘کے ابتدائی صفحات میں ہی عباس خان نے اپنے فکری سفرکا رُخ متعین کر دیا ہے۔

’’انسانی اعمال و افعال کے پیچھے پانچ طاقتیں ہیں۔بنی نوع انسان کی تاریخ کو ان میں سے کسی ایک، دو، تین ،چاریابیک وقت سب کے زیرِ اثر کہا جا سکتا ہے۔یہ طاقتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔مذہب

۲۔بھوک یا ذرائع پیداوار جن کی طرف کارل مارکس نے اشارہ کیا ہے۔

۳۔جنس جس کا شارح فرائیڈ ہے۔

۴۔خوف

۵۔لالچ یا خود غرضی

آخری دو کا نظریہ تھامس ہابز نے پیش کیا ہے۔

ان میں دو طاقتوں کا میں اضافہ کرتا ہوں۔یہ دو سچ اورموت ہیں۔موت کی بات علیحدہ کتاب میں کریں گے۔اس وقت سامنے صرف سچ ہے۔تمام انسانی اعمال و افعال کی تشریح سچ کی طرف رُخ کرکے کی جا سکتی ہے۔خود کو سچ پر جان کرانسان،انسان کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘(ص۶۔۷)

اس کے بعد عباس خان نے ول ڈیورنٹ اوربرٹرینڈ رسل کے ۱۹۳۱ء کے دو خطوط دئیے ہیں۔ول ڈیورنٹ نے سچ کی دریافت کو سب سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے جبکہ برٹرینڈ رسل نے جواباََ لکھا کہ ’’ابھی تک

کوئی سچ دریافت نہیں ہوا۔‘‘(ص۹ تا ۱۱)

عباس خان نے سچ کی جستجو میں شروع میں ہی سقراط اور نیطشے کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔سقراط سچ کو اٹل قرار دیتا ہے جبکہ نیطشے کے بقول سچ اشخاص،مقامات اور زمانوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔(ص۱۳)

پھر اپنے سچ کی تلاش میں عباس خان نے خدا،کائنات اور انسان کو اپنی بحث کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔ انسان کے حوالے سے انہوں نے انسان بذات خود،انسان جنس کے حوالے سے اور انسان بھوک کے حوالے سے، کی تخصیص بھی کر دی ہے۔ اپنے موضوع کے لیے دلائل اور حوالہ جات کے سلسلہ میں انہوں نے مذہب،فلسفہ،سائنس،تاریخ اور ادب کے ذرائع کو اہمیت دی ہے۔

’’سچ‘‘کو سمجھنے کے لیے عباس خان نے سب سے پہلے ’’جنسی جذبے‘‘(محبت)کو اہمیت دی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر علی شریعتی کے ایک اہم اقتباس کو بنیاد بناتے ہیں۔اقتباس دیکھئے۔

’’انسان چار زندانوں میں مقید ہے۔زندان فطرت،زندان تاریخ،زندان جامعہ(زندان معاشرہ )

اورزندان ذات۔

زندان فطرت سے رہائی کا ذریعہ علم یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی(ہے)۔زندان تاریخ سے رہائی کا ذریعہ بھی علم ہے،یعنی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کا علم،زندان جامعہ(معاشرہ)سے رہائی بھی علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔یہ علم عمرانیات کا علم ہے۔لیکن زندان ذات سے رہائی علم کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔اگر انسان اپنی ذات کے زندان سے آزادی چاہتا ہے تو اس کا ذریعہ علم نہیں بلکہ عشق ہے۔‘‘(ص ۱۶)

اس اقتباس کے آخری نتیجہ کو پڑھتے ہوئے اپنا ایک شعر یاد آگیا۔
جس قدر ہوتا گیا تیری محبت کا اسیر

ذات کے زندان سے حیدر ؔرہا ہوتا گیا

مذکورہ بالا چار زندانوں کے ذکر کے ساتھ عباس خان لکھتے ہیں۔

’’انسان کا پہلا زندان فطرت ہے۔انسان فطرت کے سامنے بے بس ہے۔آب و ہوا،پہاڑ، دریا ، سمندر، جنگل، طوفان،فاصلے،موسم،اندھیرا،دلدلیں،کشش ثقل،مدوجزر،آسمانی بجلیاں،بارشیں اور درندے۔ وہ ان سے اتنا لرزاں رہا کہ ان کے سامنے سجدے میں گر گیا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے لیکن اب وہ اس زندان سے نکلنے میں کامیاب ہورہا ہے۔اب یہ سب اس کی حاکمیت تلے آتے جا رہے ہیں۔‘‘(ص۱۶)

دوسرے زندان یعنی زندان تاریخ کے حوالے سے عباس خان نے تاریخ کو تھوڑا سا کھنگالا ہے ۔ مختار مسعود کے ذریعے ٹائن بی کے حوالے سے طویل اقتباس درج کیے ہیں۔اس باب میں قرآن مجید کے حوالے بھی آتے ہیں اور علی عباس جلالپوری کا زاویۂ نگاہ بھی ایک موقف کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔اور پھرعباس خان یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔

’’تاریخ اور اس کے فلسفے کو سمجھ کر انسان تاریخ کے زندان سے باہر نکل رہا ہے۔ممکن ہے کہ ایک دن مکمل طور پر اس سے نکل آئے۔‘‘(ص۴۷)

تیسرے زندان کے بارے میں عباس خان لکھتے ہیں۔

’’تیسرازندان معاشرے کا ہے۔اسے عشاق کی زبان میں ظالم سماج کہتے ہیں۔اس قید خانے کی نشان دہی آغاز ہی میں ارسطونے کر دی تھی۔اس نے کہا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس قید خانے نے انسان کو اس پریشانی سے دوچار کیا کہ سپہ گری جیسا پس منظر رکھنے والاغالبؔ بھی جس سے یوں فرار چاہتا ہے۔

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

۔۔۔۔معاشرے کی پابندیوں کے خلاف جنہوں نے آواز اُٹھائی یا تو ہیرو بن گئے یا راندۂ درگاہ (ہو)گئے۔۔۔۔علم عمرانیات کی رو سے انسان سماج کے شکنجوں سے نکل رہا ہے۔وہ بتدریج ان بندھنوں کو ختم کردے گا جنہوں نے بتدریج اس کو اپنے میں محصور کیا۔‘‘(ص۴۷۔۴۸)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International