تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عجب طرز حکومت ہے جناب

Articles , Snippets , / Friday, October 11th, 2024

ابا جی درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ، منحنی جسامت اور گھنگھریالے چھجے جیسے بالوں کے ساتھ عجیب سے ظاہری حلیے کے ساتھ بھی خاصے پر جلال اور غصے والے تھے. اماں جی سرخ و سپید رنگت، لمبے قد، ہرنی کی چال اور نشیلی آنکھوں کے ساتھ ساتھ صرف بیٹوں کی ماں ہونے کے باوجود بھی ہمارے منحنی سے ابا جی کے سامنے ہاں جی ہاں جی کی گردان کرتے تھکتی نہ تھیں. ایک سے بڑھ ایک مزیدار کھانا ابا جی کے آنے سے پہلے تیار ہو جاتا تھا، ابا جی کے کپڑے صاف ستھرے دھلے ہوے، مایا لگے ہوے کویلے کی استری پہ نک سک سے ہینگرز پہ لٹکے ہوے اماں کے سگھڑاپے اور نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھے. کھانے کے وقت گوشت کی بوٹیوں سے بھرا ہوا ڈونگا اماں کانپتے ہاتھوں سے ابا کے سامنے چن دیتیں ہم تین بھائی اور اماں کسی مفتوح عوام کی طرح سر جھکا کے ٹیبل کے کونوں میں دبک کے بیٹھ جاتے منحنی سے ابا جی گوشت کے ڈونگے پہ اس طرح سے حملہ آور ہوتے کہ چن چن کے بوٹیاں نکال کے پلیٹ میں ڈال ڈال کر کھاتے جاتے,انھیں اس بات کی قطعاً پروا نہ ہوتی تھی کہ گھر میں عالیجاہ، عزت مآب کے علاوہ بھی چار نفوس مزید بھی بونگوں کی طرح بیٹھے, بھوکے پیٹ کے ساتھ عالیجاہ کے کھانا تناول فرما چکنے کے انتظار میں صبر کے گھونٹ پی پی کے پورے ہو چکے ہیں.
تجھے کیا پتہ
اے بادشاہ
تیرا خوان تو ہے ہر بھرا
تیرا شاہی چوغہ سنہرا ہے
پر
رعایا تیری بھوکی ہے
تو اندھا ہے تو بہرہ ہے
ابا جی بڑے اطمینان سے چار پانچ روٹیاں اور تقریباً ساری بوٹیوں کا بیڑا کرنے کے بعد ناک کی سیدھ میں اپنے بیڈ روم میں استراحت فرمانے کے لیے لیٹ جاتے تو ہم تین بھائیوں کے ہاتھ بچی ہوی روٹیوں اور بچے کھچے سالن کو ٹٹولتے اور ہم بھی کسی نہ کسی حد تک پیٹ کے ایندھن کو بھرنے کی سعی ناتمام میں جت جاتے.
پیٹ کی پاپی بھوک
پیٹ کی پاپی بھوک
بھی کتنے ناچ نچواتی ہے
سرکس اور تھیٹر میں
کانٹوں پہ چلاتی ہے
.سولی پہ چڑھواتی ہے
بھوکا بھی سلاتی ہے
روزانہ اگنے والی
پاپی پیٹ کی ظالم آگ
سچ میں بڑا رلاتی ہے
تو بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہم تینوں بھائیوں نے اماں ابا کی جی حضوری کرتے کرتے آنجہانی ہو گییں ابا جی جو کل بھی ایک ریاست بے نام کے حکمران تھے آج بھی اسی چکر میں اور اسی زعم میں رعایا پہ ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف ہیں سلام اماں کی تربیت کو کہ ہم بھائیوں میں صبر کا وہ خمیر ہے کہ ہم نے ابا کو ابھی تک اس ریاست بے نام کا حکمران بنا رکھا ہے. شعر دیکھیے گا
وضع داری ہی مات کرتی ہے. ورنہ تو تیر ہے زبان اپنی
حکومت کرنا اور تخت نشین ہونا اتنا نشہ آور احساس ہے کہ انسان اپنے آپ کو کوئی آسمانی مخلوق سمجھنا شروع ہو جاتا ہے وہ نارمل نہیں رہتا اس کے خیالات، سوچیں، احساسات اسے نہ جینے دیتے ہیں اور نہ مرنے وہ آدھا زندہ اور آدھا مردہ ہوتا ہے وہ ایک ادھورا سپنا ہوتا ہے جیسے جنگل کا بادشاہ شیر ہے وہ جسے مرضی چاہے چیر پھاڑ ڈالے ویسے ہی دنیا کے بادشاہ اپنے طعام و قیام،اپنے ملبوسات، اپنے دستر خوان اور اپنے عیش و آرام کے لیے عوام کی بلی چڑھانا اپنا پیدایشی حق سمجھتے ہیں.
بادشاہ زادے تو
ریشم و اطلس پہن کے
پی کے خون عوام کا
بے وجہ اتراتے ہیں
مولا یہ شاہ زادے
کیوں جہاں میں آتے ہیں
اپنے غسل خانوں میں سونے کی accessories لگوانے والے جب تخت و تاراج سے اتارے جاتے ہیں تو ان کی بے بسی کا عالم بھی درس عبرت ہی ہوتا ہے پھر انھی بادشاہوں کو نشان عبرت بنانے کے لیے بے رحم موت دی جاتی ہے اور ان کی نازوں پلی اولاد میونسپل کمیٹی کے نلکوں پہ قطاریں بنا کے کھڑی ہوتی ہے اور عوام نفرت سے ان پہ طنزوں کے تیر چلاتی ہے تو بے ساختہ اللہ کے مالک اور طاقت کل ہونے پہ ایمان ایکدم پختہ ہو جاتا ہے. ہر طاقتور انسان ہر کمزور انسان کا استحصال کرنے میں بڑی بے رحمی سے مصروف ہے. مرد عورت کے استحصال کو اپنا پیدایشی حق سمجھتا ہے، مالک ملازم کے استحصال کو اپنا پیدایشی حق سمجھتا ہے گھر کی عورت اپنے گھر اپنے چوکی باورچی خانے میں کسی دوسری عورت کا قدم پڑنا بھی پسند نہیں کرتی لوگوں کے غرور اور نخوت کا یہ عالم ہے کہ اپنے برتنوں کے علاوہ کسی دوسرے کے برتن کو وہ جوٹھا اور نجس سمجھتے ہیں. اور غریب غربا اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر سیکنڈ ہینڈ کپڑے، جوتے برتن اور سامان ضرورت خوشی خوشی کے کے گھر لوٹ جاتے ہیں. ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جاے گا گھر کے سربراہ سے بھی سوال ہوگا ملک کے بادشاہ سے بھی سوال ہوگا گھر کے ملازم سے بھی سوال ہو گا.
نینی کا پورا دن ملازمت میں گزر جاتا تھا اس کے گھر بار بچوں اور بوڑھی ساس کی زندگیوں کا سارا دارومدار تیس سالہ رحمتاں پہ تھا اور اللہ جانتا ہے کہ ر رحمتاں بھی اس گھر میں نینی کی غیر موجودگی میں ایک ظالم حکمران کی طرح معصوم بچوں اور بے بس بڑھیا سے انتہائی برا سلوک کرتی تھی. یاد رکھیں کہ ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا لہذا اپنے اختیارات کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیجیے اپنے حدود سے تجاوز مت کیجیے کیوں کہ جس مالک کل نے آپ کو اس چند روزہ آزمائش میں ایک امتحانی ہرچہ حل کرنے کے لیے بھیجا ہے اس کی پوچھ بہت سخت ہو گی. آپ سب تیار رہیے اس دن کے لیے جب بے بس اور لاچار اپنی محرومیوں کے بدلے نوازے جایں گے اور چھین جھپٹ کرنے والے خالی ہاتھ ہوں گے.
میں تو نہیں ہوں حکمرانوں میں
تخت منصب کے سب شیطانوں میں
ان بکاو، ایوانوں میں اور شیطانوں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International