منیزہ احمد
شہر حیدراباد
بعد مرنے کے ماں اکثر بچے یہ ہی کہتے ہیں
ماں تم نے سب کچھ سیکھایا ہمیں
نہیں سیکھایا تو خود کے بغیر رہنا نہیں سیکھایا
میرے بچوں میں نہیں چاہتی کہ مرے مرنے کے بعد تم بھی یہ بولو
تم لوگ تین دن سوگ منا لینا میرا
میری جدائی میں رو بھی لینا
پر اتنا یاد رکھنا تمھارے آنسو میری روح کو بے چین کر دیں گے
میں عالم ارواح میں بھی تمھارے لیے پھر بے چین رہوں گی
مانا کہ یہ مشکل ہوگا بند خود پر باندھنا کھٹن ضرور ہوگا
پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرہم خود ہی رکھنا ہوگا
تم ایک دوسرے کا خیال رکھنا
محبت ،الفت ،یگانت اور خلوص دل سے اک دوسرے سے جڑے رہنا
سامان میرا گر استعمال کرنا چاہوں تو کر لینا
ورنہ اسے کسی ضرورت مند کو دے دینا
صبر ،برداشت ،تحمل ،
بردباری بھی تمھاری ذات سے جڑ جائے گی
بچپن کہیں گھر کے کسی دریچے سے لوٹ جائے گا
قہقہوں کی گونج مدھم ہوجائے گی
لبوں پر مسکراہٹ کا بیسرا کرلینا
گر ہوسکے تو کچھ پڑھ کر بھی بخش دینا مجھے
میرے نام کا صدقہ خیرات بھی کردینا کبھی
گھر کے در و دیوار وہی ہوں گے
بس روز و شب تھوڑے بدل جائیں گے
ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی
تم سب ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کرنا
جو جو تعلیم و تربیت کی تھی تم سب کی
اس پر عمل پیرا رہنے کی کوشش بھی کرنا
حوصلہ پست نہ ہونے دینا کبھی خود کا
اپنے بابا کا بھی دھیان اچھے سے رکھ لینا
وہ بھی اداس ہونگے میری جدائی میں
وقت ان کا اچھے سے گزرے اس کا اہتمام کردینا
بار تو بڑھ جائے گا سب کے کندھوں پر
ایک نہ ایک دن تو جانا ہی ہے نا سب نے
بس اس کے بعد تم سب اک دوجے کے سانجی ساتھی ہی بنے رہنا
اک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا
زندگی میں بہت بدلاؤ آٹیں گے
چڑیوں کے گھونسلے کہیں اور بس جائیں گے
اپنے پرانے گھونسلے کی بھی کچھ خیر و خبر رکھنا
کہتے ہیں والدین کے لیے نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے
بعد مرنے کے میرے ، میرے رشتہ داروں اور دوست احباب سے سلام دعا رکھنا
تم سب سے اک جیسی محبت کی تھی میں نے
گر کبھی کسی کو لگا ہو کہ حق تلفی کی ہو اس میں، میں نے
تو مجھے معاف کر دینا میری نظر میں تم سب اک جیسے ہو
میرے لیے مشکل ہے موازنہ کرنا کہ کس سے ذیادہ الفت ہے
کسی کی کوئی ادا لبھاتی ہے تو کسی کی کوئی ادا
یقین کروں ماں کی ممتا اک جیسی ہی ہوتی ہے
بنا کسی اونچ نیچ اور بھاؤ تاؤ کے
میں تم میں موجود نہیں ہوں گی
پر مجھے تم اپنے آس پاس محسوس کروں گے
کبھی کسی جملے میں کبھی کسی موقع پر
کبھی کسی سفر میں کبھی خوشی میں
میں تم لوگوں کی باتوں میں یادوں کے گلدستہ میں شامل رہوں گی
میری خوشبو تم میں رچی بسی ہے
بس اس کو تم محسوس کرلینا
میرا آنچل اوڑھ کر
خود کو میری بانہوں کے گھیرے میں محسوس کرلینا
بعد مرنے کے میرے خود کو مضبوط کرلینا
خود کو خود ہی سنبھال لینا کہ یہ ہی حوصلہ جینے میں معاون ثابت ہوگا تمھارے میرے بچوں ۔۔
Leave a Reply