تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان : تنقید برائے اصلاح

Articles , / Friday, April 26th, 2024

نیلم وحید – سائیکالوجسٹ *(راولپنڈی)

ارسطو کے مطابق “انسان ایک معاشرتی جانور ہے۔” اِسی وجہ سے وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔ اِسی میل جول کی بناء پر ایک انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے میں تمام افراد ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں اور اجتماعیت کی بنیاد قائم کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان باقی تمام انسانوں سے الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرکے پُرسکون‌‍ زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ چونکہ انسان سماجی دائرہ سے منسلک ہے اور اُسکی پہچان بھی اُسکے اردگرد کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ اگر انسان کے قریب کے لوگ عمدہ خصوصیات، خوبیوں، اور عادات کے حامل ہیں، اچھی صحبت اور نفیس کردار کے مالک ہیں ‏تو اُنکی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوست احباب میں پیدا ہوئی خامیوں اور نقائص کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ تنقید برائے اصلاح انسانی معاشرہ کا ضروری پہلو ہے اور اس کی ضرورت ہر دور میں یکساں رہی ہے۔ تنقید کا بنیادی مقصد انسان کی اصلاح کرنا ہونا چاہیئے یعنی انسان کی خرابیوں اور اس کے اندر پیدا ہوئے بگاڑ یا نقص کو دور کر کے اس کے اندر سدھار پیدا کرنا۔ انگیزی میں constructive criticism / encouraging feedback بھی کہ سکتے ہیں۔
تنقید کا سب سے نمایاں عنصر یہ ہے کہ تنقید سب کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے۔ محفل میں تنقید کرنے سے انسان عدم اعتماد، احساسِ ندامت، اور احساسِ کمتری جیسے منفی جذبات کا شکار ہو جاتا ہے نتیجتاً انسان کی شخصیت مسمار ہو جاتی ہے اور اسکی ذات کی تکمیل ناممکن ہو جاتی ہے۔ تنقید موقع محل، انسان کے موجودہ حالات واقعات اور مزاج کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرنی چاہیئے۔ انسان کی ذات کی کاملیت اور پختگی کیلئے تنقید نہایت ضروری ہے انسان کی زندگی میں بہتری اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ اسکے کام اور اسکی عادات واطوار پر مثبت تبصرہ نہ کیا جائے اسکی کوتاہیوں کو زیرِ بحث لا کر انکو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ انسان کی grooming کیلئے تنقید برائے اصلاح اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ دینی اور دنیاوی تعلیم۔ تنقید برائے اصلاح بھی تعلیم کا ہی حصہ ہے جو انسان اپنے تجربات سے حاصل کرتا ہے اور اپنے قریبی دوست احباب سے لیتا ہے اس کیلئے کسی ادارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ انسان کے خیر خواہ نہیں ہوتے، وہ طنز اور طعنوں کے نشتر برساتے ہیں، تمسخر، نکتہ چینی، عیب جوئی اور کیچڑ اچھالنا اُنکا من پسند مشغلہ ہوتا ہے، دل میں بغض، حسد اور کینہ رکھ کر منافقت کی چادر اوڑھ کر ہمارے حق میں اچھا بننے کا دکھاوا کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپکو آپکی خامیوں سے آگاہ کرتے ہیں آپکو بلند مقام پر دیکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔ اُنکامقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ آپکی کوتاہیوں، غلطیوں اور خامیوں کے بارے میں بتا کر آپکی زندگی کے ہر پہلو میں نکھار لاسکیں۔ تنقید برائے اصلاح کے مختلف ذرائع ہیں جن میں اِبتدائی دور کی اصلاح کیلئے والدین انسان کی رہنمائی اور بھلائی کیلئے تنقید کرتے ہیں۔ اساتذہ کا کردار بھی انسان کی اصلاح میں ناقابلِ فراموش ہے۔ قریبی اور مخلص دوست جو کہ اللہ تعالٰی کی نعت ہوتے ہیں انسان کی اصلاح کا سب سے بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ علاوۂ ازیں قرآن پاک جو کہ انسان کیلئے سراپا ہدایت ہے، بھلائی، اصلاح، اور رہنمائی کیلئے ہی نازل کیا گیا تاکہ انسان اپنی خرابیوں سے چھٹکارا پالے اور بلند عہدہ اور مرتبہ پاسکے۔ تنقید برائے اصلاح میں ہمارا اولین فریضہ دوسرے شخص کی خود اعتمادی اور خود ارادیت کو ترقی دینا، اسکی نشوونما اور تکمیلِ ذات ہونا چاہیئے نہ کہ اپنے تجربات، خیالات اور حالات و واقعات کو دوسروں پر مسلط کرنا۔ تنقید کرتے ہوتے نیت کا خالص اور حقیقت پر مبنی ہونا نہایت اہم ہے۔ تنقید اس مقصد سے کی جائے کہ دوسرے انسان پر اسکے اس قدر گہرے اثرات مرتب ہوں کہ اسے ترغیب ملے کچھ کر دکھانے کی، اپنے آپکو منوانے کی، اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی، اپنے اندر چھپے ہوئے فن، ذہانت اور قابلیت کو پہچاننے اور اسے مثبت طریقے سے استعمال کرنے کی۔ تنقید کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ آپ دوسروں کی حوصلہ شکنی نہ کریں چاہے آپکا کتنا ہی اختلافِ رائے کیوں نہ ہو۔ ہر انسان کو اللہ تعالٰی نے ایک دوسرے سے مختلف تخلیق کیا ہے جسکی بناء پر تمام انسانوں کی خصوصیات، خوبیوں، صلاحیتیوں اور قابلیت میں بھی انفرادیت نمایاں ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کم تر یا حقیر نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے سے منفرد ہوتا ہے اور یہی انسان کی خاصیت ہے فرق صرف اسکی شخصیت، رہن سہن اور ماحول میں ہوتا ہے۔ عصرِ حاضر کی اشد ضرورت ہے کہ انفرادی اختلافات کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے، تنقید برائے تنقید سے اجتناب کرتے ہوئے تنقید برائے اصلاح کرنے کی سعی کرنی چاہیئے۔ اس کوشش میں خیال رکھیں کہ انسان کے مذہب، رنگ و نسل، ماحول، عادات و اطوار اور شخصیت کو تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جائے بلکہ تنقید کا واحد مرکز صرف اسکا کام، خامی یا وہ مخصوص شَے ہونی چاہیئے جس پر تنقید کی جا رہی ہے۔ تنقید برائے اصلاح کا مقصد ہمت بڑھانا، تحریک دینا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے نہ کہ دل شکنی اور حوصلہ پست کرنا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International