مصنفہ: فاطمہ بنتِ لیاقت علی
شہر : بورے والا
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
میرے گاؤں کے کسانوں نے شہر میں نوکری کرلی
کسان ہی وہ محسن ہیں جو ہمارے لئے خوراک کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہو یا دسمبر جنوری کی جما دینے والی ٹھنڈ، یہ ہر موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ان کی محنت سے فائدہ اٹھانے والے لوگ تومعاشی ترقی کے بام عروج پر پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہ بے چارے کسان اکثر و بیشتر معاشی ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی معاشی ترقی کےلیے انتہائی اہم ہے اور جی ڈی پی میں اضافہ کے لحاظ سے یہ ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، جو ملک کی جی ڈی پی کا 20 فیصد سے زیادہ ہے، یہ تقریباً 45 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے اور آبادی کے ایک اہم حصے کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔ گندم، چاول، کپاس، گنا اور مکئی سمیت اہم فصلوں کے ساتھ پاکستان میں زرعی شعبہ متنوع ہے۔ یہ ملک مویشیوں کی ایک اہم آبادی کا گھر بھی ہے، جس میں بڑی تعداد میں گائے، بھینس اور بھیڑیں ہیں۔ اس طرح پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ کسی نہ کسی طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود یہ شعبہ زرعی مسائل کا شکار ہے کیونکہ تقسیم کے فوری بعد شعبہ زراعت کی ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جا سکی۔ یہ ہمارے لیے انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہم اس شعبے کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ تاجر طبقے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ابھی گزشتہ سال کی بات ہے ، پورے ملک بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں کاشتکار ڈھول بجاتے اپنی آنکھوں کے سامنے ہزاروں ایکڑز پر محیط اپنی فصلوں کو ٹڈی دل کی نذر ہوتے دیکھتے رہے لیکن اس کا بھی حکومتی سطح پر کوئی ازالہ نہ ہو سکا جس کی وجہ سے کاشتکار مقروض ہیں اور ان کے گھر بار گروی پڑے ہیں۔ ابھی ٹڈی دل سے جان نہیں چھوٹی تھی کہ شدید بارشوں نے ان کی فصلوں کو تہس نہس کر دیا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ہوئی۔ پنجاب میں بھی سیلاب نے کافی تباہ کاریاں جس کی وجہ سے کسانوں کی تمام فصلیں تباہ و برباد ہوگئیں جن میں مکئی کی فصل شامل ہے جو کہ کسانوں کے ہاں بہت اہمیت کی حامل مانی جاتی ہے وہ سیلاب کی نظر ہوگئی اور ان کے حالات بد سے بد ترین ہوگئے اور کسان بے گھر ہوگئے۔ آخر کیوں اتنی اہمیت کے باوجود کوئی اہمیت نہیں؟ یہ سراسر نا انصافی ہے۔ ہم زیادہ دور کی بات نہیں کرتے ابھی حالیہ دنوں میں گندم کی کاشت ہوئی۔ جو کہ سیلاب کی وجہ سے اس سال کی پہلی فصل ہے تو پنجاب میں اس سال گندم کی بہت اچھی فصل ہوئی ہے لیکن کاشتکاروں کو کم حکومتی نرخ کے باوجود خریداری نا ہونے پر پریشانی کا سامنا ہے۔
حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا حدف 3900 روپے فی من مقرر کیا ہے، جب کہ گذشتہ برس یہ نرخ 4000 روپے تھا۔ کاشتکاروں کے مطابق فلور ملز گندم 2000 سے 2200 روپے فی من کے نرخ پر خرید رہی ہیں اور حکومتی اعلان کے باوجود انہوں نے ابھی تک خریداری شروع نہیں کی۔ تو اس میں قصور بیچارے کسانوں کا تو نہیں جنہوں نے نہ دھوپ دیکھی نا چھاؤں دیکھی، دن رات اس فصل پر محنت کی لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کو ان کے پسینے کے مطابق بھی معاوضہ نہیں مل پایا۔ کسان تا حال پریشان ہیں، فریاد کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں۔
اس وقت کسانوں کی صورتحال بہت سنگین ہے، اب حکومت کے جاگنے کا وقت ہے، اور ضروری ہے کہ ہم بھی کسانوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ہمیں زرعی شعبے کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور اپنے کسانوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے، فصلوں کی پیداوار اور قیمت کو اور بروقت خریداری کو یقینی بنانا ہے، اور فصلوں کی پیداوار کو جدید بنانے اور بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے سبسڈی اور مراعات پیش کرنی ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی کر سکے۔
مزید برآں، ہمیں کسانوں کے لیے ایک اور بہت اہم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے وہ ہے حکومتی توجہ کی کمی کو دور کرنا اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے کسانوں کو ضروری وسائل اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو، اس میں انہیں تربیت اور تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ ہمیں اپنی معیشت اور خوراک کی حفاظت میں اپنے کسانوں کے تعاون کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ وہ ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں۔
آخر میں، میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہمارے کسانوں کی حالیہ صورتحال ہم سب کے لیے جاگنا اہم ہے۔ ہمیں اپنے کسانوں کی مدد کرنے کے لیے اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ انہیں وہ پہچان اور وہ معاوضہ ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہمارا زرعی شعبہ ترقی کرتا رہا ہے اور ترقی کرتا رہے گا۔ آئیے! ہم اپنے کسانوں کی مدد کے لیے آواز اٹھائیں اور اپنے ملک کے روشن مستقبل کو یقینی بنائیں۔ آئیے! مدد کے لیے کسانوں کی فریاد سنیں اور ان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔ ہم اپنے بچوں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا زرعی شعبہ مضبوط اور متحرک ہو۔
Leave a Reply