تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان۔ بابری مسجد

Articles , / Sunday, May 19th, 2024

از قلم بسمہ اسلام (مردان)

علی جب سکول سے گھر واپس آیا تو بہت پریشان تھا بنا کھائے پیئے وہ سیدھا وضو کر کے جانماز پر جا کھڑا ہوا نماز پڑ کر جب وہ دعا کرنے لگا تو بہت رو رہا تھا اور دعا کے لیے جب ہاتھ اٹھایا تو اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہنے لگا یا اللّٰہ ہم مسلمان اتنے کمزور کیوں ہے ؟ یا اللّٰہ آج کے مسلمانوں کو کیوں خوف ہیں ؟ وہ کیوں پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟ کیا انہیں آپ پر یقین نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ نہیں چاہتے کہ آپ کسے مدد کرتے ہیں مسلمانوں کی جو خق پر ہوتے ہیں کیوں یا اللّٰہ کیوں؟ اگر یہ لوگ حق کے لیے آواز بلند نہیں کرینگے تو قیامت والے دن آپ کا سامنا کسیے کرینگے ؟ اتنے میں ابو بھی دوکان سے واپس آئے اور پوچھا کیا ہوا علی بیٹا اتنا کیوں رو رہے ہو؟
تب علی نے کہا ابو آپ کو پتاہ ہمارے سکول میں جو ہندو لڑکا تھا روہیل ، اس کے ساتھ میری بحث ہوگی اور اس نے مجھ سے کہا کہ ہم ڈرتے ہیں ان سے ہم ان کے ساتھ لڑ نہیں سکتے ۔
میں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم حق کے لیے لڑتے ہیں ہمشہ اور ہم جیت بھی جاتے کیونکہ ہم حق پر ہوتے ہیں
تب اس نے مجھ سے کہا کہ ہم فلسطین کو دیکھ رہے ہیں کہ کتنی مدد کر رہے ہیں آپ لوگ ان کی وہ بھی تو مسلمان ہیں نہ اور میں نے سنا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ۔ تب میرے پاس ان کو دینے کے لیے کوئی جواب نہ تھا آبو کوئی نہیں ، تب میرا دوست ہے نا عمر ؟ اس نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں ہم سب ہم ان کی مدد کرینگے پر دیر اس لیے ہوگی ہیں کہ وہ پورا ایک الگ ملک ہے اور ہمیں دیر لگی گی پر ہم مدد کرینگے ان کی، مجھے بھی لگ رہا تھا کہ وہ صرف جواب دینے کے لیے ایسا بول رہا ہے تب ابو آپ کو پتاہ ہے اس نے کیا کہا اس نے کہا کہ وہ مسجد ، مسجد بابری ( میر باقی مسجد ) وہ تو آپ کے دیش میں تھی نا ؟ آپ ان کے لیے کیا کر پائے کچھ بھی تو نہیں تب آبو میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے ہم سب دوستوں کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے آبو کیوں کہ ہمیں کچھ پتاہ ہی نہیں تھا کہ یہ جو مندر ہے مندر ایودھیا یہ ہماری مسجد تھی پہلے ، ہمیں کچھ نہیں پتاہ تھا اس کے بارے میں ہم کیسے مسلمان ہے آبو ؟؟
وہ یہ سب بولتے ہوئے روئے جارہا تھا سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا ۔
آبو بھی وہی جانماز پر علی کے ساتھ بیٹھ گیا بیٹا یہ مندر ہمارا مسجد ہی تھا یہ مسجد بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھا جس کو جس کو ظہیر الدین بابر ( 1483ء – 1531ء) کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی کے ذریعہ سن 1527ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن کے اعتبار سے ایک شہکار مسجد تھی۔ علی بہت غور سے یہ سب سن رہا تھا تب آبو سے پوچھا آبو کیا یہ مندر تب بھی ایسے ہی بنا ہوا تھا ۔
آبو نے کہا : نہیں علی بیٹا اس مسجد میں بہت سکون ہوتا تھا بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے تھے، جن میں سے درمیانی گنبد بڑا اور اس کے دونوں طرف دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا، جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں وضو کے لیے پانی مہیا کرنے کی غرض سے ایک کنواں بھی کھودا گیا تھا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا تھا، روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی معمولی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں بآسانی سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا ایک شاہکار تھی۔
آبو تو یہ ایسا کب بنا؟
آبو: بیٹا بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید/مسمار کر دیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔ تحریک کے دوران میں 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو کار سیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں مار دیا گیا۔
علی : پر آبو یہ سب لوگ کیا کر رہے تھے تماشائی بنے تھے بس؟
آبو: علی بیٹا بابری مسجد کے انہدام سے پہلے ہندو مظاہرے کے منتظمین نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس مظاہرے میں ہندستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔
علی ؛ آبو ان ہندؤں کو اس مسجد کی ضرورت ہی کیوں تھی اتنے سالوں سے تو ہمارا تھا نا یہ اب کیوں چاہیے انہیں ؟
آبو: بیٹا ہندووں کے نظریہ کے مطابق رام کی جنم بھومی پر یا رام مندر پر تعمیر کی گئی۔ جب کہ مسلمان اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو کچھ ہندو تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔
علی: آبو کیا مسلمانوں نے کچھ نہیں کہا انہیں ؟
آبو: علی بیٹا بابری مسجد کا تنازع اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان میں شدید نزاع کا باعث ہے.
بعض شر انگیز افراد جن میں آگے چل کر وشو ہندو پریشد نامی تنظیم بھی شامل ہو گئی تھی، نے ایک پروپگنڈا پھیلایا تھا۔ اس کا حاصل یہ تھا کہ بابری مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔
علی کے آنکھوں میں آنسوں تھے اور وہ بہت غور سے اپنے آبو کو سنتا جارہا تھا ۔
1949ء میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو ان عناصر نے مسجد کو مسمار کر دیا۔
اللّٰہ آبو ہمارے مسجد کو شہید کر دیا گیا ؟ اور مسلمانوں نے کچھ بھی نہیں کیا ؟؟
آبو؛ مسجد کو شہید کرنے کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
یہ فسادات جاری ہی تھے کہ 1959 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔
علی ؛ آبو جب سب ٹھیک ہوگیا تھا تو کیوں ان ہندؤں نے اس کو مندر میں تبدیل کر دیا ؟
سب سہی جارہا تھا بیٹا پر 1949ء میں مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازع مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔
علی ؛ آبو پھر؟
آبو ؛ بیٹا 1984 میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔
1986ء میں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔
1989 میں وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔
لیکن پھر بھی مسلمانوں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور ہوتے ہوتے یہ فیصلہ ہوا کہ اکتوبر 2010ء میں الٰہ آباد عدالت نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی بازتعمیر کی گنجائش رکھی۔
10 نومبر 2019 کو، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کرلیے – پھر بھی ہندوستانی جمہوریت سے انکار کرتے ہوئے، بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا۔ اور 5 اگست 2020 ملک کے وزیر اعظم کے ہاتھوں رام مندر کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔
علی کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے آبو کیا ہم ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے ؟کیا ہم جہاد نہیں کر سکتے ؟ کیا ہم حق کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ؟ ہمارے پاس سوشل میڈیا موجود ہیں ہم آواز اٹھا سکتے ہیں پر ہم کیوں خاموش ہیں پوری عالم اسلام کیوں خاموش ہیں آبو ؟
آبو: بیٹا شاید اس کیوں کا جواب ہیں میرے پاس کیوں کہ یہ لوگ یہ عالم اسلام ڈرتے ہیں کہ کہی ہم ان کی مدد کر دیں اور وہ ہماری مدد کرنا بند کر دیں اگر ہم فلسطین کی مدد کر دینگے تو امریکہ ہم پر ڈولر بند کر دینگے بیٹا آج کے مسلمانوں کے ایمان کمزور ہوگئے ہیں ہم ڈر رہے ہیں ۔
علی ؛ لیکن آبو جب قیامت کے دن ہم سے اللّٰہ پوچھے گا کہ ہم نے ان لوگوں کی مدد کیوں نہیں کی پھر ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ۔
آبو نے نظریں جھکا کر اٹھتے ہوئے کہا بیٹا اس کیوں کا جواب تو میرے پاس کیا کسی کے پاس بھی نہیں ہوگا ۔
علی ایک بار پر ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ سے مخاطب ہوا میں یا اللّٰہ میں کسی بھی مذہب کے عبادت گاہ کی توہین کے حق میں نہیں مگر ایک مسجد کی شہادت پر خاموش رہ کر بارگاہ الہی میں منافقین میں شامل نہیں ہوسکتا ، میں قیامت کے دن آپ کے سامنے نظریں جھکا کر کھڑا نہیں ہوسکتا ،
میرے مالک میرے ہاتھ میں موبائل انٹرنیٹ کی سہولت اور آواز اُٹھانے کے لئے سوشل میڈیا ہے ، میں نے ایک کمزور مسلمان ہونے کا فرض ادا کر دیا
میرے مالک تو ہر چیز پر قادر ہے
یا اللّٰہ جیسے تم نے موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی ایک گائے کے زریعے یا اللّٰہ جیسے آپ نے غزوہ بدر میں فرشتوں کے زریعے مسلمانوں کی مدد کی، جیسے آپ نے ابابیل کے زریعے خانہ کعبہ کو بچایا تھا ایسے ہی بابری مسجد کو شہید کرنے والوں پر بھی اپنا قہر برسا ، انہیں زلیل اور خوار کر دیں اور فلسطین پر ظلم کرنے والے لوگو کو تباہ اور برباد کر دیں یا اللّٰہ انکی بھی مدد فرما یا اللّٰہ، یا اللّٰہ ہماری مدد فرما یا اللّٰہ ہم 1 ارب ہونے کے باوجود بھی 120 کروڑ سے اپنی مسجد کی حفاظت نہ کرسکے۔
یا اللّٰہ ہمیں اب فلسطین کی حفاظت کرنے والے بنا یا اللّٰہ ۔۔ (آمین ثم آمین یا رب العالمین)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International