rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے پوری قوم کو شوگر کا مرض ہی اب اس مہنگی چینی سے بچا سکتا ہے۔ فیضو چاچا نے ہوٹل والے کی یہ بات سن کر کہ چینی مہنگی ہونے کی وجہ سے اب چائے کے کپ کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے، یکدم ہی یہ جملہ ایسا کہا کہ ان کی اس بات پر ہوٹل میں بیٹھے اردو گرد کے لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، جو پہلے ہی چائے مہنگی ہونے کا سن کر پریشان نظر آ رہے تھے۔ کچھ دیر تک تو سب غصے سے چاچا فیضو کو دیکھتے رہے، پھر یکدم سے قریب ہی بیٹھے ماجد چاچا نے فیضو چاچا کو غضبناک نظروں سے دیکھتےہوئے کہا، یار کچھ سوچ کر تو بولا کر تو کیا سمجھتا ہے کہ شوگر کا مرض کوئی رحمت خداوندی ہے جو تم سب کے لئے مانگ رہے ہو۔ جب دیکھو الٹی سیدھی بولتا رہتا ہے۔
فیضو چاچا سب کے یوں غضبناک ہونے سے گھبرا کر کہنے لگے ، یار ماجد میں تو اس لئے کہہ رہا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور گنا ہم خود اگاتے ہیں، یعنی اس کی پیداوار ہماری اپنی پیداوار ہی تو ہے، شوگر ملیں ہمارے اپنے لوگوں کی لگی ہوئی ہیں تو اس سے بننے والی چینی خالصتا” ملکی ہوئی، لیکن اس کی قیمت دن بدن یوں اوپر کی طرف جا رہی ہے جیسے چینی مقامی کرنسی روپے میں نہیں بلکہ ڈالرز میں خرید کر عوام تک پہنچ رہی ہو۔
اس پر اختر بابو، جس کو محلے میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے، اور وہ کسی سرکاری محکمہ میں کلرک بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان دو اوصاف کی وجہ سے وہ تمام اہل محلہ پر اپنی قابلیت کا رعب جھاڑتے رہتے ہیں اور تمام اہل محلہ پر اپنی قابلیت کی دھاک بھی بٹھا رکھی ہے، کہنے لگے، فیضو چاچا آپ کو ان سب باتوں کا کچھ پتہ بھی ہے؟ پھر چائے کی چسکی لیتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بتانے لگے، بات یہ ہے کہ ہم جو چینی بناتے ہیں وہ ہم یا تو برآمد کر کے یا پھر اسمگلنگ کے ذریعے دوسرے ممالک بھجوا دیتے ہیں، یوں اپنے ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، پھر ملک میں چینی کی قلت ہونے پر قلت دور کرنے کے لئے دیگر ممالک سے یہ چینی ڈالرز میں درآمد کر لیتے ہیں، تو پھر چینی ڈالر کی قیمت میں ہوئی نا تو اسی حساب سے ہی ملے گی۔
یہ سن کر ماجد چاچا نے کچھ فکرمند ہوتے ہوئے اختر بابو سے دریافت کیا، یہ تو بتاو جب ملک میں چینی پوری ہی نہیں ہوئی تو اپنی چینی باہر اسمگل کرنے والوں کو حکومت نے پکڑ کر سزا کیوں نہیں دی ؟
لو جی اس سوال پر تو اختر بابو کو ہنسی کا دورہ ہی پڑ گیا، اور وہ زور زور سے ہنسنے لگے، پھر اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہنے لگے، بھئی جب زیادہ پیسے آتے نظر آ رہے ہوں تو پھر یہ پیسے کس کو برے لگتے ہیں؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ جب ہماری مقامی چینی مارکیٹ میں آتی ہے تو حکومت ایک قیمت مقرر کرتی ہے لاگت کے حساب سے، اب اس کی قیمت اس لئے بھی کم ہوتی ہے کہ یہ ہماری اپنی پیداوار ہے، لیکن جن دوسرے ملکوں میں اس وقت چینی کی طلب ہوتی ہے تو ان ممالک کے تاجر مقامی تاجروں کو اس کی زیادہ قیمت دے کر خریدنا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ باہر سے اس کی مانگ زیادہ قیمت پر ہوتی ہے تو آپ خود اندازہ لگائیں فائدہ کس میں ہے باہر بھیجنے میں یا ملک میں بیچنے میں؟ تو ایک مافیا حکومت کو باور کرواتا ہے کہ منافع کمانے کے لئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے جس سے حکومتی زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، تو ایک دوسرا مافیا اس چینی کی اسمگلنگ شروع کرتا ہے۔ دونوں طرح یہ مافیا چینی زیادہ قیمت پر باہر بھیج کر خوب منافع کماتا ہے۔ پھر جب یہ چینی باہر ممالک کو بھیج دی جاتی ہے تو ملک میں چینی کی قلت ہوجاتی ہے۔ چینی کا بحران پیدا ہو جاتا ہے، تو اب کی بار چینی باہر سے منگوانے کی تجویز حکومت کو دی جاتی ہے تاکہ ملک میں چینی کی کھپت پوری کی جا سکے۔ اس لئے باہر ممالک سے پھر مہنگی چینی منگوا کر ملک میں بیچی جاتی ہے اور اس پر بھی منافع کمایا جاتا ہے۔ اس طرح فائدہ کس کا ہوا؟
فیضو چاچا اور ماجد چاچا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اختر بابو سے کہنے لگے لیکن حکومت اس تمام عرصے کے دوران کیا کر رہی ہوتی ہے ؟
اختر بابو نے کہا کہ حکومت عوام کو تسلی اور منافع خوروں کو تھپکی دے رہی ہوتی ہے ۔
تھپکی ؟ مگر تھپکی کیوں ؟ فیضو چاچا نے حیرت سے پوچھا۔
ارے بھئی تھپکی دے کر حکومت میں شامل افراد بھی تو اس منافع سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، اور پھر مختلف مواقع پر یہی منافع خور لوگ ان کے بہت کام آتے ہیں، عوام تو صرف بیوقوف بننے کے لئے ہوتے ہیں ۔
لیکن اتنے سال ہو گئے ہیں کیا اب تک حکومت کو اندازہ نہیں ہوا کہ ملک میں سالانہ چینی کی کتنی کھپت ہے؟ اس حساب سے چینی رکھ کر باقی چینی حکومت خود برآمد کرے تاکہ پیسہ براہ راست ملکی خزانے میں آئے اور عوام کو بھی سہولت ملے، ماجد چاچا کے اس سوال پر اختر بابو نے بہت گہرا سانس لیا اور کہنے لگے اگر ایسا کیا جائے تو پھر لوگوں کا انفرادی فائدہ کیسے ہوگا پھر تو ملکی خزانہ بھرے گا ۔
کیا ملک کی خوشحالی ان لوگوں کے لئے اہم نہیں ہے؟ فیضو چاچا کا سوال شائد حیرت لئے ہوئے تھا لیکن جواب کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ حکومت میں موجود افراد کے نزدیک ملک اور قوم کی اہمیت نہیں بلکہ پیسہ اہم ہے۔
ایکدم ہی کافی دیر سے خاموشی سے چائے پیتے صغیر کی نحیف سی آواز آئی، تو حزب اختلاف کیا کرتی ہے وہ کیوں آواز بلند نہیں کرتی۔ عوام کا احساس نہیں کرتی۔
صغیر محلے کا ہی ایک نوجوان تھا، جو حکومت سے نالاں اور حزب اختلاف کی جماعت کا حمایتی تھا۔
اختر بابو ہنسنے لگے اور کہنے لگے، تم کیا سمجھتے ہو یہ سب کرنے والے کیا ہر طرف نظر نہیں رکھتے؟ وہ حکومت کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف جماعتوں کو بھی ساتھ ملائے رکھتے ہیں، کیونکہ ان کو پتہ ہے جو آج حکومت میں ہیں کل کو وہ نہیں ہوں گے، اور وہ ہوں گے جو آج حزب اختلاف میں ہیں، تو ان کا دھندہ نہ رکے اس لئے یہ مافیا سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ویسے بھی اس مافیا میں بہت سے وہ ارکان ہیں جو خود ان جماعتوں کے اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔
عوام اپنے حقوق کے لئے ایک نہیں ہیں لیکن یہ مافیا عوام کو لوٹنے میں ایک بنا ہوا ہے، اور مل کر ملک کو لوٹ رہا ہے۔
ہوٹل میں مکمل خاموشی تھی کوئی کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، یا پھر سوچ رہے تھے کہ ملک کیساتھ یہ سب کرنے والے کیا ملک کے وفادار ہیں؟ لیکن اگر یہ سب وفادار نہیں ہیں، اور ان کو صرف پیسوں سے پیار ہے، تو پھر ملک کا وفادار آخر کون ہے؟
فیضو چاچا نے ہوٹل میں موجود ہونک ہوئے لوگوں پر ایک طنزیہ نظر ڈالی، اور کہنے لگے تو میں نے درست ہی کہا تھا نا کہ پوری قوم کو شوگر ہو جائے تو ہی یہ قوم چینی کھانا چھوڑے گی، کیونکہ سوال کرنا اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا تو یہ قوم کب کا چھوڑ چکی ہے ۔
سب چپ بیٹھے تھے ہوٹل پر خاموشی راج کر رہی تھی اور بیک گراؤنڈ میں ہوٹل کے ٹیپ ریکارڈر پر چلتا یہ ملی نغمہ
” سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے ”
سب کے دل کی آواز بن کر اس خاموشی میں حوصلے کی کرن بن رہا تھا ۔
میں ایک کونے میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی حل ہے مسائل کا؟ تو پھر چینی بحران سے بچنے کے لئے شوگر ، نمک بحران سے بچنے کے لئے بلڈ پریشر، گھی بحران سے بچنے کے لئے کولیسٹرول اور مہنگائی سے بچنے کے لئے؟ آخر کتنی بیماریاں علاج ہیں اس قوم کی حالت کو سنبھالنے کے لئے؟ لیکن کیا اب بھی ہم ایک تندرست قوم ہیں، یا پہلے ہی ہمیں ظلم سہنے کا کینسر لگا ہوا ہے؟ جس کا علاج نہ ہوا تو عوام ایسے ہی پستی رہے گی، اور مافیا راج دن دوگنی ترقی کرتا رہے گا۔ان حالات میں عوام کی زندگیوں میں گھلتی کڑاوہٹ کا مداوا کیسے ممکن ہو پائے گا۔
Leave a Reply