ایک بزرگ کی حکایت مشہور ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ جنگل سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک بہت ہی لاچار گیدڑ کہیں ایک کونے میں پڑا ہوا ہے ، ان بزرگ کو اس پر بڑا ترس آیا ۔ بزرگ نے سوچا یا اللہ یہ اس جنگل میں تنہا ہے اور شکار کی سکت بھی نہیں رکھتا ،آخر اس تک خوراک کیسے پہنچتی ہو گی ۔ وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک شیر کہیں سے نمودار ہوا ۔ اس نے ایک ہرن شکار کیا، اور وہیں چھوڑ کر چلا گیا ۔ بزرگ کی حیرت میں بہت اضافہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ وہ گیدڑ آہستہ آہستہ گھسٹتا ہوا شکار کے نزدیک آیا اور وہ خوراک اٹھا کر اپنی جگہ واپس پہنچ گیا۔ بزرگ نے یہ دیکھا تو کہا کہ یا اللہ واقعی تو ہی رازق ہے اور ہر ایک تک رزق پہنچاتا ہے ۔ اب سے مجھے بھی کچھ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بس ہر وقت عبادت میں مشغول رہیں گے، اور ایک مسجد میں جا بیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ کب خوراک کا انتظام ہو گا۔ کچھ دیر گزری تو دیکھا کہ کچھ لوگ راہ خدا میں خوراک تقسیم کر رہے ہیں ۔ ان بزرگ کو دیکھ کر وہ ان کے پاس بھی چلے آئے اور کھانا ان کو دے دیا۔ بزرگ نے شکر ادا کیا اور کھانا کھا لیا۔ رات کو خواب میں ندا سنائی دی حیف ہے تجھ پر تجھے گیدڑ تو نظر آیا کہ اس تک رزق پہنچا مگر وہ شیر نظر نہ آیا جو رزق پہنچانے کا وسیلہ بنا ۔
یہ حکایت پڑھنے کے بعد جب آپ ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ شیر نہیں ہر طرف صرف گیدڑ بنا رہا ہے ۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ چیرٹی دینے والی اقوام میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پھر بھی آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں ہر طرف بھکاری ہی بھکاری نظر آنے لگے ہیں۔ اور اتنے بھکاری ہو گئے ہیں اور لت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب تو ویزہ لگوا کر دوسرے ملکوں میں بھی بھیک مانگنے پہنچ رہے ہیں اور ملک کی بدنامی کروا رہے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام میں گداگری کو ایک لعنت تصور کیا جاتا ہے جس پر کافی احادیث بھی موجود ہیں مگر اسی ملک میں لگیں مفت کھانوں پر لمبی لمبی لائنیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ یہاں صرف گیدڑ وں کی ضرورت ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ کیا وجہ ہے کیوں اس چیرٹی سے کارخانے بنا کر ہنر مند افراد نہیں پیدا کئے جا رہے ؟ وہ افراد جو شیر بن کر معاشرے میں عزت سے جینا سیکھ سکیں ۔ کیوں آئی ٹی اور جدید تعلیمی نظام کے میدان میں یہ پیسہ نہیں لگ رہا ، تاکہ نوجوانوں کو اس میدان میں یوں ترقی دی جائے کہ ان کی ترقی کی دھاڑ چہار عالم سب کو سنائی دے ۔ کیوں کاروبار کے ذرائع پیدا نہیں کئے جا رہے ، تاکہ لوگ خود کما کر شیر کی طرح زندگی گزار سکیں ۔ اور معاشرے میں موجود امیری اور غریبی کی تقسیم کو ختم کرنے کی طرف ایک مثبت قدم اٹھایا جا سکے ۔
کیا وجہ ہے کہ یہ تمام این جی اوز اس پر فوکس کرنے کے بجائے گیدڑ بنانے میں خوش ہیں ۔ کیا ان کا مفاد اسی میں ہے کہ غریبوں کو اس حالت سے باہر نہ نکالا جائے؟ کیا وہ صرف گیدڑوں کی پیداوار سے خوش ہیں جو نہ سوچ سکیں، نہ سمجھ سکیں اور نہ معاشرے کے قابل ذکر فرد بن سکیں ۔ اس طرح دراصل وہ ان قوتوں کے آلہ کار بنتے ہیں جو عوام کو اس حالت میں رکھ کر ان پر حکومت کرنے کے خواب کو حقیقت کا رنگ دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو علم ہے کہ اگر اس محکوم طبقے کو شیر بننے میں مدد دی تو اس ترقی میں وہ ان نام نہاد رہنماؤں کو بہا کر لے جائیں گے اور ایک روشن مستقبل کا دروازہ کھل جائے گا۔
آپ ہر سال کی ایک قرارداد منتخب کرتے ہیں تو 2025 کی یہی قرارداد منتخب کر لیں کہ ہم نے ملک میں مزید گیدڑ نہیں بنانے ۔ بلکہ شیر بنانے ہیں ۔ جو اس دنیا سے اپنا حق لے سکیں اور پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید بن سکیں
Leave a Reply