Today ePaper
Rahbar e Kisan International

عوامی درد سے محروم حکمرانوں کی عقل کے بخیے اُدھڑنے والے درزی لکھاری پنجابی کے انقلابی شاعر استاد دامن کے حالات زندگی اور شاعری سے ملواتی تحریر

Articles , Snippets , / Wednesday, February 26th, 2025

ظفر اقبال ظفر
پنجابی کا کھلا پن سیاسی و سماجی طنز برجستگی روانی حقیقت سادگی احساس میں لپٹے ان گنت معنی سے بھرپور شعر کہنے والے استاد دامن کا اصلی نام چراغ دین عرف چاغو والد کا نام میراں بخش والدہ کا نام کریم بی بی ہے آپ کی قبر کے کتبے پر تاریخ پیدائش یکم جنوری بروز ہفتہ 1910درج ہے آپ اندرون لاہور چوک مستی میں پیدا ہوئے تیرہ سال کی عمر میں آپ کامحنتی غریب درزی گھرانہ چوک مستی سے باغبان پورہ منتقل ہو گیاآپ کے والد میراں بخش لوہاری دروازے کے باہر ایک دوکان پر درزی کا کام کرتے تھے استاد دامن کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی جو آپ سے عمر میں بڑے تھے استاد دامن کا رنگ گوارا گرج دار آوازسر کے بال استرے سے صاف کروا کے رکھتے دوتہی کرتہ نیچے سلوکہ کندھے پہ چادر سر پر پگڑی نما پٹکا تن زیب رکھتے تھے بچپن سے ہی پڑھائی کے شوقین ساندھادیو سماج سکول لاہور سے میٹرک کرکے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا مگر چھ ماہ بعد ہی والد کی بیماری اور گھریلوحالات کے پیش نظرتعلیم جاری نہ رکھ سکے قرآن پاک حفظ کیاوالد کی خواہش و کوشش تھی کہ ان کا بیٹا ان کی زندگی میں ہی سلائی کا سارا ہنر سیکھ کر روزی روٹی کمانے کے قابل ہو جائے والد کی تکمیل خواہش اور ضروریات زندگی کے وسائل بڑھانے کے لیے آپ نے استاد وہاب نامی ٹیلر کی شاگردی میں کوٹ پتلون اجکن شلوار قیمض بنانے میں کمال مہارت حاصل کی اُس وقت شلوار قمیض کی سلائی دس آنے ہوتی تھی مگر استاد دامن دس روپے لیتے تھے کیونکہ وہ نلکی کے دھاگے کی بجائے کپڑے کے اندر سے دھاگہ نکال کر سوٹ سلائی کرتے تھے جس کی وجہ سے سلائی نظر نہیں آتی تھی آزادی کی بڑی بڑی تحریکوں کے راہنما لیڈرآپ سے اپنے کپڑے سلواتے تھے آپ نے اپنے دور میں تجو یز خطی کے بڑے شاعر باؤ ہمدم کی شاگردی میں اپنے خیالوں کوشاعری میں مزید نکھارا مگر استاد دامن پیدائشی شاعر تھے انہوں نے دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دئیے آپ کے والد میراں بخش خود صوفیانہ شاعری کے دیوانے تھے جنہیں ہیر وارث شاہ اور فضل شاہ کی سوہنی زبانی یاد تھی جبکہ استاد دامن بھی ہیر وارث شاہ کی بہر میں لکھتے پہلا مشاعرہ پندرہ سالہ عمر میں باغبان پورہ لاہور میں پڑھاجس کی صدارت استاد دامن سے اپنے کپڑے سلوانے والے کانگرس رہنما میاں افتخار الدین نے کی اس موقع پر سردار گیانی گرمکھ سنگھ مسافر نے صدر مشاعرہ سے کہا کہ استاددامن نے بہت کمال شعر پڑھے ہیں انہیں سو روپیہ انعام دیا جائے پہلے مشاعرہ میں ہی نامور استاد شاعروں میں اپنا آپ منوانا اور انعام پانا استاد دامن کے فن شاعری کا قد بتاتا ہے آپ نے عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جیسے لوگوں کی موجودگی میں سیاسی سماجی مذہبی جلسوں میں اپنے کلام پڑھے اور عوام کے دلوں کی آواز بن کر اُبھرتے چلے گئے پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان میں شعر نہیں کہے جبکہ وہ فارسی عربی روسی اردو ہندی انگلش سنسکرت زبانیں پر بھی عبور رکھتے تھے استاد دامن نے شاعری کی فنی خوبیوں پر قدرت رکھنے کی بدولت اہل علم و فن سے استاد کا خطاب حاصل کیا استاد دامن غریبوں مظلوموں مزدروں کسانوں جیسے پسے ہوئے طبقوں کے لیے آواز اُٹھانے اور استحصالی طبقوں کی مزحمت کرنے والے بااثرشاعرتھے۔
میرے ہنجواں دا پانی پی پی کے
ہری بھری اے بنجر زمین ہو جائے
ایدے منہ تے سرکھی چاہی دی اے
میرے لہو توں پاوئیں رنگین ہو جائے
استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فلبدی گوئی تھی وہ موقعوں کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کے مالا پرو دیتے تھے آزادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے دہلی میں منقید مشاعرے میں شرکت کرکے یہ نظم پڑھی۔
اینا ں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او ہوئے ایسی وی آں
کج امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او موئے اسی وی آں
جیوندی جان ای موت دے منہ اندر
ڈوے تسی وی او ڈوے اسی وی آں
جاگن والیا رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پیی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
انسانی جان پر آزادی کے نام سے ٹوٹنے والی قیامت کے شکار حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے مشاعرے میں موجودبھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی آبدیدہ ہو گئے انہوں نے استاد دامن کو آزادی کا شاعر کے خطاب سے نوازتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام پزیر ہو جائیں مگرانہوں نے جواب دیا کہ میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور میں ہی رہو ں گابیشک جیل میں ہی کیوں نہ رہوں 1962میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے ائرپورٹ پر اترئے تو انہوں نے پاکستانی گورنر اختر حسین سے کہا کہ میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں مگر ادب کی دولت سے ناآشنا گورنر اختر حسین نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ کو ن ہے استاد دامن؟اس درویش سے ناواقف حکمرانوں کی موجودگی کے باوجوداس محب وطن شاعر نے ساری زندگی غربت و افلاس میں گزارنے کے باوجود پاکستان کے ہی گیت گائے اس پاک دھرتی کو نفرتوں بے ایمانیوں عیاریوں سے پاک کرنے کے لیے عوام میں اپنی شاعری کے زریعے انسانی حقوق کی صدائیں بلند کیں اورامن و محبت کے پھول نچھاور کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اُن برائیوں کی بھی مزاحمت کرتے رہے جو عوامی مفاد کے نقصان میں تھیں استاددامن نے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرپور تنقید کے ساتھ عوامی شعور کو بیدا ر کیاعوامی حقوق کے کھوکھلے نعروں اور ملکی زوال پہ لکھتے ہیں۔
کھائی جاؤ کھائی جاؤ بھیت کنے کھولنے
وچو وچی کھائی جاؤ اُتوں رولا پائی جاؤ
انا مارے انی نوں کسن وجے تھمی نوں
جنی تواتھوں انی پیندی اُنی انی پائی جاؤ
کھائی جاؤ بھئی کھائی جاؤ بھیت کنے کھولنا
لڑکی والوں پر رسم و رواج اوربارات کے کھانے کا بوجھ ڈالنے کی مخالفت رکھنے والے استاد دامن نے1949میں ایک قطرین نامی لڑکی سے سادگی و پوشیدگی میں شادی کی جس سے ایک بیٹا بھی تھا جو پیدائش کے بعد مر گیا اور بیوی کے پیٹ میں رسولی تھی جس کا علاج کروایا مگر وہ بچ نہ سکی استاد دامن نے اپنے ایک انٹریو و میں کہا کہ کوئی بھی انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتا مگر حالات و واقعات اسے اکیلے پن پر مجبور کر دیتے ہیں میری پہلی شادی قدرت کو منظور نہ تھی اور دوسری شادی میرے نزدیک سودے بازی ہے 1977کے فسادات میں ان کی دُکان کو آگ لگا دی گئی جس کے سبب مشکل مالی بحران کا شکار ہو کر باغبان پورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب ٹیکسالی گیٹ میں واقع اُس ہجرے میں منتقل ہو گئے جس میں اکبر بادشاہ کے زمانے میں حضرت شاہ حسین ؒبھی مقیم رہے پھر تادم مرگ یہی ہجرہ استاد دامن کا مسکن رہا دامن دی بیٹھک نامی اس ہجرے میں ہند و پاک کے نامور گلوکارادیب سیاسی سماجی احباب شاعر فیض احمد فیض صوفی تبسم حبیب جالب امجد اسلام امجد منو بھائی ملکہ ترنم نور جہاں ادکار محمد علی فلمسٹار علاؤ الدین جیسی عام و خاص قد آورشخصیات سیاسی ادبی فکری گفتگو کے لیے آیا کرتیں جن کے لیے استاد دامن مختلف زائقہ دار خوراکیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر پیش کیا کرتے ٹیکسالی گیٹ کے اس ہجرے میں استاد دامن 1950سے لیکر 1984تک رہائش پزیر رہے یہیں سے ہی استاد دامن نے عوام کے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حکومتی بیماریوں کی نشاندہی کیاستاد دامن کے سارے اشعار اپنی تاثیر کی وجہ سے ضرب المشل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں استاد دامن نے زندگی اور معاشرے کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کیا ان کے تجربات کی سلطنت انتہائی وسیع تھی وہ کمال خوش اصلوبی سے عمومی سطح کے تجربوں کو بیان کرتے دانائی کے موتی بکھیرتے چلے جاتے ایک سچا شاعر ادیب ہر دور میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہوا انجام کے خطرے سے بے خوف رہتا ہے استاد دامن کے بقول بڑے لکھاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرئے استاد دامن کے شعور میں جوں جوں پختگی آتی گئی اُن کا زہن دنیا سماج کائنات کے مسائل پر سفر کرتا گیا وہ پسے ہوئے غریبوں پہ گزرنے والے حالات یوں بیان کرتے ہیں کہ۔
ایتھے انقلاب آؤے گا ضرور
ایتھے انقلاب آؤے گا ضرور
ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں
پیراں نال میٹن والیو
او دو دو ہتھی
دولتاں نوں اج سمیٹن والیو
او لٹے پٹے ہوراں دی
صف کو سمیٹن والیو
کر لو کوٹھیاں وچ چاننے
کھو کے غریباں دا نور
ایتھے انقلاب آئے گا ضرور
ایتھے انقلاب آئے گا ضرور
تسی کیڈی لیکھنی نال ساڈے
لیکھ لیکھنے چاہندے او
ساڈے پراواں دے ہتھوں
پرا مردے ویکھنے چاہندے او
ساڈیاں ہڈیاں دے پامبڑ
سیکنے چاہندے او
کانوں حشر توں پیلاں
پھوکنے شروع کیتے جے صور
ایتھے انقلاب آئے گا ضرور
ایتھے انقلاب آئے گا ضرور
درجن بھر رزق کمانے والے ہنر جاننے والے استاد دامن نے جرمن کمپنی جان ولیم ٹیلر سے سلائی کٹائی کا ڈپلومہ حاصل کرکے باغبان پورہ لاہور میں دامن ٹیلرنگ ہاؤس نامی اپنی دوکان کھو لی یہ درزی خانہ استاد دامن کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا مگر روحانی خوشی شاعری سے ہی حاصل ہوتی اور دیکھتے ہی دیکھتے استاد دامن کا درزی خانہ شاعری کا شوق رکھنے والوں کے لیے ایک درس گاہ کا روپ دھار گیا استاد دامن کی قلمی شخصیت پرفیض احمد فیض کہتے ہیں کہ میں پنجابی شاعری اس لیے نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین ؒوارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں اس کے علاوہ فیض صاحب نے استاد دامن کو پنجابی شاعری کا حبیب جالب بھی کہا قیام پاکستان کے وقت جب شرپسندوں نے استاد دامن کی دُکان لائبریری اور کتابوں کو آگ لگا دی تھی جس میں ان کی زاتی تحریریں اور ہیر کا مسودہ بھی شامل تھا جل کر راکھ ہو گئے تو انہوں نے اپنی قلمی کاوشیں کاغذ کے ٹکڑوں پہ لکھنے کی بجائے عوام کو سونپنی شروع کر دیں
اسٹیجاں تے آئیے سکندر ہوئی دا اے
اسٹیجوں اتر کے قلندر ہوئی دا اے
الجھے جے دامن حکومت کسے نال
بس اینا ای ہوندا اندر ہوئی دا اے
ایوبی بھٹو اور ضیا دور میں قید کاٹنے والے استاد دامن نے بھٹو دور میں بھی حکومت کی پالیسیوں پرتنقیدی نظمیں لکھیں جب ایک طرف بھارت سے سو سال جنگ کرنے کی بات کرنے والے بھٹوصاحب اندراگاندھی سے ملنے شملہ گئے تو اس پر استاد دامن نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرکے یہ نظم لکھی
ایہہ کی کری جانا اے ایہہ کی کری جانا اے
کدی چین جانا اے کدی روس جانا اے
کدی شملے جانا اے کدی مری جانا اے
جدھر جانا ایں بن کے جلوس جانا اے
دھسا دھس جانا دھسا دھوس جانا
لائی کھیس جانا اے کھچی دری جانا اے
ایہہ کی کری جانا اے ایہہ کی کری جانا اے
یہ نظم جب بہت مشہور ہو گئی تو استاد دامن کو جیل میں ڈال دیا گیا فیض صاحب کو یقین ہی نہ آئے کہ کوئی شخص استاد دامن کو جیل میں ڈال سکتا ہے استاد دامن پر جھوٹا الزام لگا کر مقدمہ بنایاگیا کہ ان کے پاس سے ریوالور بم برآمد ہو ئے ہیں جب مجسٹریٹ نے ان کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ میرے ہجرے کا تو دروازہ چھوٹا تھا ورنہ وہاں سے تو ٹینک نکلنے چاہیے تھے جس پر استاد دامن نے یہ نظم لکھی کہ۔
چوکی تھانے حوالات کچہریاں نیں
کتھے کتھے جا کے میرے کم نکلے
نکلے کوئی میدان وچ نکل سکدا اے
سینہ ٹھوک کے تے جم جم نکلے
نکلے پر کوئی مینوں دبا سکدا اے
پاویں کوئی لے کے دم خم نکلے
تے دامن شاعر دے قبضے وچ ویکھیا جے
دو۔ریوالور تے دستی بم نکلے
استاد دامن کی مشہور زمانے کتاب دامن دے موتی ان کی باکمال شاعری کالطف اندوز مجموعہ ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو ان کے دور کے حالات و واقعات سے ملوانے کا سچا آئینہ ہے استاد دامن فیض اور جالب کے چاہنے والوں میں سے تھے 80کی دہائی میں جب ان کے منہ بولے بیٹے فلمسٹار علاؤدین کا انتقال ہوا تو استاد دامن کی جیسے اپنی روح پرواز کر گئی ہو کبھی بستر کبھی اسپتال کبھی گھر کمزور پڑتی صحت کے ان ایام میں کچھ ہی عرصے بعدفیض احمد فیض صاحب بھی خالق حقیقی سے جا ملے استاد دامن کے چاہنے والوں کے روکنے کے باوجود اپنے قلمی یار کے جنازے میں شریک ہو ئے جہاں لوگوں نے پہلی بار استاد دامن کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا ایسے معلوم ہوتا تھاگویا تقسیم ہند سے لیکر آج تک ٹوٹنے والی ساری قیامتوں کی ازیت فیض صاحب کے رخصت ہونے بعد ہی ان تک آئی ہیں فیض صاحب کا انتقال 20نومبر 1984کو ہوا اور اُسی شام استاد دامن کی ہمت بھی جواب دے گئی ایسے ٹوٹے کہ صرف تیرہ دن بعد ہی بروز سوموار3دسمبر 1984کو فیض صاحب کے پیچھے ان کی رُوح بھی آسمانی سفر پہ روانہ ہو گئی استاد دامن کی وصیت کے مطابق قبرستان مادھو لال حسینؒمین گیٹ لاہور میں شاہ حسین ؒ کے مزار کے سائے میں دفن کیا گیا۔
ماری سرسری نظر جہان اندر
تے زندگی ورق اُتھلیا میں
دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں
ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International