تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عید کارڈ اور خود نمائی

Articles , Snippets , / Tuesday, April 16th, 2024

ہارون رشید قریشی
عید عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی بار بار آنے یا ہر بار لوٹ کے آنے کے ہیں۔ کیونکہ عید ہر سال آتی ہے بلکہ سال میں دو مرتبہ(عیدالفطر اور عیدالاضحٰی) آتی ہے۔ روایت کے مطابق جس دن باری تعالی کے ہاں حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اس دن پہلی بار دنیا میں عید کے نام کو متعارف کروایا گیا۔ مذہبی اعتبار سے عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے روزہ رکھنا بھی شامل ہے جو اللہ تعالی کے نزدیک بہت معتبر عمل ہے۔ باری تعالی نے مسلمانوں کو رمضان مبارک میں ان کی عبادات کے صلے میں عید عطا کی تاکہ وہ باہم عید کی ساعتوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ اس کا ذکر حدیث شریف میں موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے یوم العید کو بطور تحفہ مسلم امت کو عنایت فرمایا۔ نبی اکرم صل الله عليه وسلم نے اپنی امت کے مرد و زن کو نماز عید میں شریک ہونے کا حکم دیا تھا اور خصوصاً عورتوں کے بارے میں کہا کہ نماز عید کے لئے گھر سے نکلیں جب کہ اس نماز کے علاوہ دوسری نمازیں اپنے گھروں میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد بغل گیر ہوکر ایک دوسرےکو عید کی مبارکباد دینا،اس نعمت الہیٰ کا پرجوش استقبال کرنا کے مترادف ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو دیکھنا نصیب ہوا۔اس میں عبادات کا ثواب عام مہینوں سے کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں لوگ عید کے دن ایک دوسرے سے گلے شکوے ختم کر کے بغل گیر ہوتے ہیں اور ماضی کی تمام رنجشوں کو بُھلا دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک عید کا تہوار سب سے بڑی خوشی کا دن ہے۔ چاند رات سے عید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچیوں کا بازاروں میں جانا معمول کی بات ہے۔ عید کے دن کی مناسبت سے کپڑوں اور جیولری کی میچنگ کرنا اور سب سے بڑھ کر ہاتھوں میں مہندی کے ڈیزائن بنوانے کا خاص اہتمام ہوتا ہے ۔خاتونِ خانہ کا ساری رات جاگ کر سویاں اور مزے مزے کے پکوان تیار کرنا بھی عید کی اہم تیاریوں شامل ہے۔ عید کی نماز سے پہلے بزرگ خواتین مردوں کو یاد کراتی ہیں کہ وقت کم رہ گیا ہے جلدی سے نماز کے لئے تیار ہوں۔ نماز کے بعد اپنے والدین اور وفات پا جانے والے رشتہ داروں کی قبروں پر جا کر ان کے لئے دعائے مغفرت مانگنا اور اپنے خاندان کے بزرگوں اور عزیز دوستوں کے پاس جاکر عید مبارک کہتے ہیں اور گھر واپس آتے ہوئے بازار سے حلوہ پوری ساتھ لاتے ہیں۔ گھر کے تمام ممبران اکھٹے ناشتہ کرتے ہیں اور بچوں کو عیدی دی جاتی اور یوں عید کے دن کی شروعات پیار اور محبت سے ہوتی ہے۔ ہمسایوں کے گھروں میں چھوٹی بچیاں ننھے ننھے ہاتھوں میں ٹرے پکڑے ہوئے جس کے اندر میٹھی سویاں پلیٹوں میں رکھی جاتی جنہیں اوپر سے سفید خوبصورت رومال سے ڈھانپ دیا جاتا جو کروشیا کے ڈیزائن سے بنے ہوتے جن سے ٹرے کی خوبصورتی نکھر جاتی ہے اور پتہ چلتا کہ اس گھر کے لوگ کتنے وضع دار ہیں، اس سے معاشرے کے بھائی چارے کی علامت ظاہر ہوتی۔ تمام دن مہمانوں کی آو بھگت میں گزر جاتا ہے اور سب سے اہم اگر کوئی قریبی رشتہ دار ناراض ہو گیا ہو تو اسے منانے کے لئے اسکے گھر جا کر منت سماجت کی جاتی ہے وہ عزیز تمام گلے شکوے دور کر کے ساتھ چلتے ہیں ۔ اور کامیاب فلم کی طرح ہیپی اینڈنگ ہوتی ہے۔ پرانے دنوں میں زیادہ تر عزیزو اقارب ایک ہی شہر میں رہتے، بہت کم عزیز یا دوست دوسرے شہروں میں ہوتے تھے۔ ان سے عید کی خوشی بانٹنے کے لئے خط کا سہارا لیا جاتا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں عید کارڈ متعارف ہوچکے تھے، یہ تحفہ یورپ سے آیا تھا کیونکہ کرسمس کی مبارک باد کرسمس کارڈ کی شکل میں دی جاتی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد اسکول کی کتابوں دکانوں پر عید کارڈ رکھے جاتے تھے۔ عید کارڈ زیادہ تر ایک ہی طرز کے ہوتے تھے، جن میں ایک بڑا چاند درمیان ستارہ اور پس منظر میں اللہ کے گھر یا مسجد نبوی کی خوبصورت تصویر آویزاں ہوتی تھی۔ آپ یقین کریں لوگ بڑی عقیدت اور پیار سے اپنے پیاروں کو عید کارڈ بھیجا کرتے تھے۔ جنہیں بھیجنے کے لئے کافی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ کارڈ کو خریدنا، اپنے جذباتی اور محب بھرا پیغام لکھنا جو عید کارڈ کی جان سمجھی جاتی تھی۔ ڈاک خانے جاکر اپنی ہاتھ سے ٹکٹ چسپاں کرنا اور اپنے ہاتھوں سے کارڈ کو لیٹر بکس میں ڈالنا۔ کارڈ کو پوسٹ کرنے کے بعد دل میں خاص قسم کی خوشی کا احساس ہونا کہ یہ عزیز یا دوست اس عید میں ہمارے ساتھ ہوگا۔ یہ عمل پندرہ رمضان سےشروع ہو جاتا۔ جب دنیا ترقی کی طرف گامزن ہوئی تو آہستہ آہستہ عید کارڈوں پر چاند تارے کی جگہ فلمی اداکاروں کے چہروں نے لے لی اور پرنٹنگ فارمیٹ میں پیغامات لکھے ہوتے۔ جن جذبات کا اظہار اپنے دل سے کیا کرتے وہ بھی ہم سے چھن گیا۔ پرنٹ میڈیا کی جگہ سوشل میڈیا آیا تو عید کارڈ ایسا کھویا جیسے بندہ اگلی دنیا چلا جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ جس عید کارڈ بھیجنے کا عمل پندرہ دنوں میں مکمل ہوتا تھا وہی کارڈ “عید مبارک” کے مسیج سے واٹس ایپ کے ذریعے ایک کلک سے سینکڑوں لوگوں کو پہنچ جاتا ہے اور یقین کریں اس مسیج کی اہمیت ایک کلک سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ اب تو عالم یہ ہے فیس بک، ایکس، انسٹاگرام کے آنے کے بعد جو کارڈ چاند تارے سے شروع ہوئے تھے ان کی جگہ کارڈ بھیجنے والوں کی تصاویر نے لے لی۔ عید کارڈ کی اصل روح خود نمائی میں کھو گئی۔ ہم اس دور کی آخری پیڑی ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسی ترقی دیکھی ہے جس نے سماجی رواداری کے ساتھ مذہبی اقتدار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ بقول میرے مرحوم والد کے ہم لوگ ترقی نہیں بلکہ سماجی تنزل کے طرف جا چکے ہیں.

15 اپریل 2024


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International