ہمیں تو حرفِ تسلی بھی تازیانہ ہوا
حصارِ ضبط کو ٹوٹے ہوئے زمانہ ہوا
درِ وصال تک آئی تھیں خواہشیں کتنی
مگر یہ باب کسی کے لیے بھی وا نہ ہوا
تم اپنے دل کی لگی بھی عیاں نہیں کرتے
ہمیں تو عشق ہوا اور والہانہ ہوا
اس ایک حرف کی تجسیم عمر بھر کی ہے
جو حرف اس کے لبوں سے کبھی ادا نہ ہوا
دھمال ڈالتی رہتی ہیں روز یادیں تری
یہ میرا دل نہ ہوا ، تیرا آستانہ ہوا
تمام عمر رہے ہیں نشانے پر دونوں
وہ میرا تیر ہوا یا مرا نشانہ ہوا
پکارتے ہی رہے ہم سرِ دیارِ طلب
ہمارے ساتھ کسی کا بھی رابطہ نہ ہوا
بدن کوبھیجتا رہتا ہےروز گھاؤ نئے
دماغ گویا اذیت کا کارخانہ ہوا
بس ایک خواب کی دوری پہ وصل تھا آصف
سرائے عشق سے جس روز میں روانہ ہوا
آصف شفیع
Leave a Reply