ہو چراغِ علم روشن ٹھیک سے
ذہن ہوں جگمگ نئی تکنیک سے
علم سے روشن تو ہو اٹھّا دماغ
دل کے گوشے رہ گئے تاریک سے
راے کوئی مت کرو قائم ابھی
دیکھ لو پہلے ذرا نذدیک سے
مرتبہ کس کا ہے کیسا کیا پتہ
باز آنا چاہیے تضحیک سے
ہاتھ پھیلانا مقدّر بن نہ جائے
پیٹ بھرنا چھوڑ دیجے بھیک سے
جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر
رہ گئے تھے بال کچھ باریک سے
جس کا مقصد ہو قیامِ عدل و امن
دل ہو وابستہ اُسی تحریک سے
بے سبب راغبؔ تڑپ اُٹھتا ہے دل
دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے
افتخار راغبؔ
ریاض، سعودی عرب
کتاب: خیال چہرہ
Leave a Reply