وہ زندگی میں مجھے صرف ایک بار ملا
پھر اس کے بعد نہ دل کو کبھی قرار ملا
ہُمک ہُمک کے ، تڑپتا رہا بکھرتا رہا
نہ جانے اب کے وہ کیوں اتنا سوگوار ملا
شجر کے ساتھ ہی ، سایہ بھی یار بیچ گیا
خدا کا شکر ، کہ دشمن تو طرح دار ملا
سمیٹے کیسے کوئی چاہتوں کے پھول ، اُس میں
جب اعتبار کا دامن ہی تار تار ملا
وہ بے بسی تھی کہ آنکھوں سے اشک بہہ نکلے
جو لب کشائی کا محفل میں اختیار ملا
نہ جانے گزری ہے کیا دل پہ ایسی تمثیلہ !
تری غزل کا ہر اک شعر اشکبار ملا
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply