دل مرا توڑ کے ، اس طرح اگر جائے گا
یاد رکھنا ، کہ بہت جلد تو پچھتائے گا
ملتا جلتا ہے ، پرندے سے بہت میرا خیال
شام ہوتے ہی ، ترے ذہن میں لوٹ آئے گا
بھولنے والی تو شے ہوں نہیں ہرگز ، لیکن
پھر بھی دیکھوں ، کہ مجھے کیسے بھُلا پائے گا
[
بن کے دیمک ، مرے خوابوں کا محل چاٹ چکا
غم کا عفریت ، مرا ماس بھی چُن کھائے گا
تھوپ جائے گا مرے سر پہ خطائیں ساری
اور گنہ گار بھی مجھ کو ہی وہ ٹھہرائے گا
رسمِ عدّت بھی وہ پہلی سی کہاں تمثیلہ !
جلد اشکوں کا یہ سیلاب اتر جائے گا
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply