کتنے دن اور کئی برس یوں ہی
کیا تڑپتے رہیں گے بس یوں ہی
کم اُپجتی ہیں کام کی چیزیں
اُگتے رہتے ہیں خار و خس یوں ہی
یوں ہی ہوتے ہیں تنگ دل رسوا
منہ کی کھاتے ہیں بوالہَوس یوں ہی
ہم ہی کیا کیا گمان کر بیٹھے
اُس نے پوچھا تھا حال بس یوں ہی
چاہتے ہو کہ خونِ دل نہ جلے
فن پہ حاصل ہو دسترس یوں ہی
حال دل کا بیاں کروں میں کیا
جان لیتے ہیں ہم نفَس یوں ہی
یوں ہی یاد آ گیا کوئی راغبؔ
اور آنکھیں گئیں برس یوں ہی
افتخار راغبؔ
ریاض، سعودی عرب
کتاب: لفظوں میں احساس
Leave a Reply