rki.news
نہ موجِ بحر نہ دریا نہ آب ہے یارو
ہمارے پاؤں کے نیچے سراب ہے یارو
ہر اک نظر میں جو مثلِ گلاب ہے یارو
مری نگاہ کا وہ انتخاب ہے یارو
مرے کلام سے خوشبو یونہی نہیں آتی
گلوں کے نام مرا انتساب ہے یارو
کوئی ضرور گھماتا ہے وقت کا پہیہ
نہ ہو یقین تو جینا عذاب ہے یارو
سوال طنز و ملامت کے شور کرتے رہیں
مرا سکوت ہی سب کا جواب ہے یارو
بڑھا رہا ہے تمہاری طرف جو دستِ طلب
کسی غریب کی آنکھوں کا خواب ہے یارو
ابھی گیا نہیں موسم لہو کی بارش کا
ابھی ہوا میں نمی بے حساب ہے یارو
تجلیء رخِ جاناں کو طور پر دیکھے
کسی نظر میں کہاں ایسی تاب ہے یارو
برس رہے ہیں یہ پتھر جو ہم پہ چیخوں کے
خموشیوں کا مسلط عذاب ہے یارو
پڑھے جو دل سے تقدس مآب ہو جائے
“یہ عشق ایسی مقدس کتاب ہے یارو”
پڑھو جگر کی نظر سے کلامِ اشہر کو
کہ لفظ لفظ نہاں انقلاب ہے یارو
نوشاد اشہر اعظمی
بلریا گنج اعظم گڑھ
Leave a Reply