اے مہیوال! میرے یار کہاں
جا رہے ہو ندی کے پار کہاں
تم محبت میں ایک کچا گھڑا
چل پڑے لے کے بیقرار کہاں
ڈس رہا ہے مجھے وہ رہ رہ کر
ہے چھپا آستیں میں مار کہاں
آسماں! کیا تجھے نہیں معلوم
اس زمیں پر ہے انتشار کہاں
ہر طرف سے میں ہوگیا مایوس
اب کروں تیرا انتظار کہاں
تم خیالوں میں ہی چلے آؤ
تم کو ڈھونڈھوں میں بار بار کہاں
بھول جائے تری محبت کو
یہ مرے دل کو اختیار کہاں
راستے بند ہیں تجارت کے
ڈھونڈنے جائیں روزگار کہاں
دیش برباد ہو گیا لیکن
ہے وہ بے شرم ؟ شرم سار کہاں
اپنے وطن – عزیز کی خاطر
سر تو حاضر ہے تیغ یار کہاں
سب اندھیروں کے کار و باری ہیں
روشنی کا ہے کار و بار کہاں
حق بیانی کسی کی اے منصور
روک پائے گی ہے وہ دار کہاں
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply