rki.news
یہ تو نہیں کہ حُسن سے رغبت نہیں رہی.
آنکھوں میں پر وہ تابِ زیارت نہیں رہی.
تِمثال بن چُکے ہیں شرافت کی وہ بھی اب.
اپنی بھی چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی.
ملتا ہے چین اُن کے ہی کوچے میں قلب کو.
کیسے کہوں کہ اُن سے محبّت نہیں رہی.
بیٹھا ہوا ہے سامنے میرے مرا مسیح.
اب مجھکو چارہ گر کی ضرورت نہیں رہی.
اک دوسرے کا حال کوئی پوچھتا نہیں.
دنیا میں اب وہ پہلی سی الفت نہیں رہی.
خوشحال ہو کے بھی نہ نظر آئے گا وہ خوش.
جس آدمی میں صبر و قناعت نہیں رہی.
تم چیز کیا ہو کچھ بھی نہیں ہو جنابِ من.
تم سے بڑے بڑوں کی حکومت نہیں رہی.
کہنے کو زندہ ہے وہ مگر زندہ لاش ہے.
حق بات جس میں کہنے کی ہمّت نہیں رہی.
ہم بھی فراز تھوڑے سُدھر سے گئے ہیں اب.
اُن میں بھی پہلے جیسی ظرافت نہیں رہی.
سرفراز حسین فراز پیپلسانہ مرادآباد یو.پی.
Leave a Reply