rki.news
ڈھونڈ تا کیا ہے بے وفا مجھ میں.
اب تو کچھ بھی نہیں بچا مجھ میں.
کوئی ہرگز نہ ٹک سکا مجھ میں.
تو ہی تو بس رہا سدا مجھ میں.
تیری آنکھوں کو جو پسند آئے.
ایسی کوئی نہیں ادا مجھ میں.
جو سکھائی ہے عشق نے تیرے.
اب بھی باقی ہے وہ وفا مجھ میں.
تیری خوشبو ہے یا تیرے جلوے.
اور کیا ہے ترے سوا مجھ میں.
مست نظروں سے جو چڑھا تیری.
اب بھی باقی ہے وہ نشا مجھ میں.
دل چرا لیتا آپ کا میں بھی.
کاش ہوتی جو یہ کلا مجھ میں.
ایک پل بھی تجھے نہیں بھایا.
کیا کمی تھی بھلا بتا مجھ میں.
ڈھونڈ تا کیسے میں تجھے آخر.
مجھکو میں ہی نہیں ملا مجھ میں.
کیا ٹٹولے ہے نبض کو میری.
اب تو کچھ بھی نہیں رہا مجھ میں.
ہر برائی فراز ہے لیکن.
نام کو بھی نہیں انا مجھ میں.
سرفراز حسین فراز پیپل سانہ مرادآباد.
Leave a Reply