rki.news
اہلِ حکَم کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پیالے میں سچ کے زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آئینۂ حیات کا انجام جو بھی ہو
پتھر بکف یہ شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
سب رہروانِ شوق نہ جانے کہاں گئے
اجڑی سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شہرِ اماں کا حال ہے ناقابلِ بیاں
بہتی لہو کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بار ناخدا ہے نہ کشتی ہے اپنے ساتھ
اس بار موجِ بحر ہے اور ہم ہیں دوستو
دل میں کسی خوشی کو جگہ کس طرح سے دیں
اک بے بسی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
گردِ سفر ہے آنکھوں میں سر پر تھکن کا بوجھ
انجان ایک شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
نوشاد اشہر اعظمی
بلریا گنج اعظم گڑھ
Leave a Reply