تبھی تو ملنے کی چاہت شدید ہوتی تھی
پلٹ کے آؤ گے ایسی اُمید ہوتی تھی
عجیب سانپ تھے خوشبو کو بھانپ لیتے تھے
گلوں کی چاہ میں تتلی شہید ہوتی تھی
زمانے والے مری عاشقی پہ ہنستے تھے
خمارِ عشق میں مٹی پلید ہوتی تھی
چراغِ زیست میں جلتا تھا یہ لہو اپنا
پھر اُس کے بعد غزل اک کشید ہوتی تھی
خدا کی ذات پہ رکھتے تھے ہم یقیں اپنا
تُو ٹھیک ہوگا ہمیں یہ امید ہوتی تھی
تمہارے قرب کی لذت بھلے میسر تھی
تمہارے وصل کی خواہش مزید ہوتی تھی
وہ ایک وقت تھا تمثیلہ شاعری اپنی
کسی کے پیار میں کتنی جدید ہوتی تھی
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply