آنکھوں میں ترا عکس بنایا ہے مرے دوست
سرسوں کو ہیتھلی پہ جمایا ہے مرے دوست
لفظوں سے یہاں باندھ کے رکھےہیں کٸی تیر
لہجے میں عجب زہر ملایا ہے مرے دوست
اپنوں نے مرا ساتھ نبھایا ہی نہیں کیوں؟
اس غم نے مرے دل کو گھٹایا ہے مرے دوست
اُس پل سے ہواٶں میں اڑا رکھا ہے خود کو
جب ہاتھ نجومی کو دکھایا ہے مرے دوست
ہر پل میں کسی اور ہی دُنیا میں رہوں اب
مجھ پر کسی آسیب کا سایہ ہے مرے دوست
دولت نے نکھارا ہے ترا روپ ہمیشہ
غربت نے مرا خون بہایا ہے مرے دوست
وقت نے ملایا ہے یہ تمثیلہ ہمیں پھر
یہ وقت ہی اس موڑ پہ لایا ہے مرے دوست
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply