جھوٹ کے شہر کو پانی میں بہا دیتے ہیں
خواب کے دیس کو اک رنگ نیا دیتے ہیں
اپنے سب خوابوں کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
خواب دیکھے ہیں تو قیمت بھی چکای ہے ناں
خواب ہم جیسوں کو رستے سے ہٹا دیتے ہیں
بند آنکھوں میں میرے خوابوں کا تو شور تو سن
زخمی پیروں سے یہ زنجیر ہلا دیتے ہیں
راستوں کو تیری آمد کا پتا دیتے ہیں
ہم چراغوں میں نءی شمع جلا دیتے ہیں
کیا ضروری ہے تیرے نام کی تہمت جاناں
آ ،تیرے نام کو ہاتھوں سے مٹا دیتے ہیں
ہم. شب ہجر کے گم گشتہ ستارے پونم
کہکشاوں کو اک راہ دکھا دیتے ہیں
ڈاکٹر پونم نورین لاہور
Leave a Reply