مجمع لگا کے اپنی دعا بیچتے ہیں ہم
پتھر کوئی بنامِ خدا بیچتے ہیں ہم
بھر بھر کے سانس اپنی غباروں میں آجکل
جا جا کے شہر بھر میں ہوا بیچتے ہیں ہم
اپنی دکاں پہ رنج و اَلم مختلف ہیں دوست
بازار بھر سے چیز جدا بیچتے ہیں ہم
قبروں پہ بھی ہے شال چڑھانے کا کاروبار
دربار پر بھی جلتا دِیا بیچتے ہیں ہم
تیری گلی میں روز لگاتے ہیں ہم صدا
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا بیچتے ہیں ہم
ہوتا نہیں ہے ہم سے کوئی مطمئن کبھی
سامان اس قدر جو بُرا بیچتے ہیں ہم
تمثیلہ اپنی بھوک مٹاتے ہیں اس طرح
دل سے نکلنے والی صدا بیچتے ہیں ہم
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply