Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“فرش راہ“ کا مسافر بدرالحسن بدر

Articles , / Wednesday, September 17th, 2025

جناب بدرالحسن بدر ایک زود گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سادہ طبیعت، منکرالمزاج اور ایک خلیق انسان بھی تھے.آپ 2/مئی 1956 کو اپنے ابائی وطن بکھری مکھاچک، بیگوسرائے (بہار) میں پیدا ہوئے.تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس سے منسلک ہو گئے اور ایم ایل جوبلی انسٹی ٹیوٹ (کولکاتہ) میں بحیثیت استاد فائز ہوگئے. دوران ملازمت ایک درسی کتاب ” ہم اور ہماری دنیا “ (جغرافیہ)  منظر عام پر آئی تھی. آپ نے 1991-92 کے آس پاس شاعری کا آغاز کیا اور معروف شاعر حضرت ارمان شام نگری کو اپنا استاد تسلیم کیا.ارمان صاحب کے انتقال کے بعد جناب ثمر بلیاوی اور  ناچیز سے تا حیات مشورہ سخن کرتے رہے. ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد آپ مسلسل بیمار رہنے لگے باوجود اس کے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور آپ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے. اب انکے بچوں نے اپنے والد مرحوم کے سرمایہء شوق کو یکجا کرکے ”فرشِ راہ“ کے نام سے ایک شعری مجموعہ بہت جلد منظر عام پر لانے کا ارادہ کیا ہے. بدرالحسن بدر نے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے جیسے حمد، نعت، منقبت، نظم، ، ہائکو وغیرہ لیکن غزل کو  ہی اپنا محبوب صنف سخن بنایا.
غزل عربی زبان کا لفظ ہے.غزل کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا

غزل کا میدان کافی وسیع اور کشادہ ہے.غزل کی افادیت چند لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.اردو شاعری میں غزل کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں  موجود ہیں جیسے قصیدہ، مرثیہ، مثنوی وغیرہ لیکن جو مقبولیت غزل کو حاصل ہوئی ہے وہ کسی اورصنفِ سخن  کو نہیں ہو سکی. غزل کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہا. غزل ابتدائی دور سے ہی تنقید کا شکار رہی.حالی کو اس میں سنڈاس کی بدبو محسوس ہوئی تو کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی صنفِ سخن قرار دیا. یہی نہیں بلکہ عظمت اللہ خاں نے یہ مشورہ دیا کہ غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینی چاہئے ایسی شدید مخالفت کے باوجود بھی غزل کی مقبولیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی بلکہ روز بروز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا.
خواجہ الطاف حسین حالی کہتے ہیں شاعری اکتساب سےحاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا ہے وہی شاعر بنتا ہے یعنی شاعری کے لیے طبع موزوں شرطِ اول ہے. کسی کی طبیعت میں اگر موزونیت نہ ہو تو وہ شعر نہیں کہ سکتا. بدر الحسن بدر نے جس روانی کے ساتھ شعر کہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طبِع رسائی ہر موضوع کو شاعری کے پیکر میں ڈھال سکتی ہے چاہے وہ عشقیہ موضوع ہو یا زمانے میں رونما ہونے والے واقعات و سانحات سے متعلق موضوعات ہوں.بدر الحسن بدر انہیں بحسنِ خوبی اپنے اشعار میں پیش کرنے کے ہنر سے واقف تھے.
آیئے موصوف کے چند اشعار پیش خدمت  ہیں غور فرمائیں ————-
ہمارے شہر میں منہ دیکھ کر خیرات بٹتی ہے
یہاں روٹی اسے ملتی ہے جو بھوکا نہیں ہوتا

ایک روٹی سے شکم کی آگ جبکہ بجھ گئی
آج پہلی بار مجھ کو زندگی اچھی لگی

کس  طرح  سنائیں  غمِ حالات  جہاں کو
ہر شخص سے اپنی تو طبیعت نہیں ملتی
اے بدرؔ  ذرا  پوچھے کوئی  اہلِ جہاں سے
کیوں آج وہ پہلی سی محبت  نہیں ملتی

میرے ہونٹوں کے تبسم پہ نہ جائے کوئی
میری  بیمار  طبیعت  کی  دوا  ہے لوگو

شاعر کا اصل کمال یہ ہے کہ اس کا رنگ سب سے جدا ہو اور وہ دور سے ہی پہچانا جائے.ماناکہ ان کا اسلوبِ بیان منفرد نہیں ہے لیکن منفرد سا ضرور ہے اور کاوش وقت کی گہرائی اور گیرائی لئے ہوئے مائل بہ پرواز نظر آتی ہے.ان کے یہاں غزل کا مفہوم صرف محبوب سے گفتگو نہیں ہے بلکہ وہ ذاتی احساسات و مشاہدات کو بھی اپنے شعروں کے اندر اجاگر دیکھنا چاہتے ہیں. یہی سبب ہے کہ وہ الفاظ و مفہوم کو برتنا تو چاہتے ہیں مگر فکر کے گرداب میں پھنس کے ایک ہی جگہ گھومتے نظر نہیں آتے ہیں.
آیئے ذوقِ مطالعہ کے لیے چند اشعار اور پیش کیے  دیتے ہیں ———————–
غریبی اک بلائے ناگہانی ہے زمانے میں
غریبوں کا کوئی ہمدرد و ہم سایہ نہیں ہوتا

ضرورت ہے کرو تم آبیاری بوڑھے برگد کی
کہ تپتی دھوپ میں سایہ بڑی مشکل سے ملتا ہے

تسلی کو بروئے کار وہ ہونے نہیں دیتی
یہ کیسی کشمکش ہے جو مجھے سونے نہیں دیتی

ایسا کرو کہ بدرؔ کو تنہا ہی چھوڑ دو
ادنی’ سا یہ کرم جو اگر تم سے ہو سکے

بدرالحسن بدر اپنے اشعار میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کا اظہاراس انداز سے کرتے ہیں کہ اس میں تلخ بیانی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ ان کی شیریں بیانی کا اثر نمایاں ہوتا ہے جو قارئین کے ذوقِ مطالع کو تسکین  عطا کرتا ہے. مندرجہ بالا اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ شاعر نے اپنی پوری زندگی تجربے کی دھوپ میں  گزاری ہےاس لیے ان کی شاعری میں تجربات مختلف انداز میں ڈھل کر متفرق زاویئے سے نظر آتے ہیں ایسے دلکش اور با معنی اشعار ” فرشِ راہ“ کے ہر صفحے پر بکھرے پڑے ہیں امید ہے ادبی حلقوں میں اس کتاب کی خاطر خواہ پزیرائی ہوگی
۔   شمیم انجم وارثی(کولکاتہ)
١٢\ستمبر ٢٠٢٥ء


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International