rki.news
تحریر ایوب کھوسہ
فلسطین محض ایک جغرافیہ نہیں بلکہ ایک روحانی حوالہ ہے، انبیاء کی جائے قدم، معراج النبیؐ کا نقطۂ آغاز، اور امتِ مسلمہ کی روحانی شناخت۔ جب اس سرزمین پر آگ و خون کی بارش ہوتی ہے، بچے ملبوں تلے دب کر دم توڑ دیتے ہیں، اور مائیں لاشوں سے لپٹ کر نوحہ کرتی ہیں، تو یہ صرف ایک انسانی سانحہ نہیں ہوتا — یہ ایک باطنی صدائے احتجاج ہوتا ہے، جو اُن دلوں تک ضرور پہنچتا ہے جو ابھی تک مرے نہیں۔ غزہ کی گلیوں میں بہتا ہوا خون ہمیں ہمارے ضمیر سے جھنجھوڑ کر سوال کرتا ہے: کیا تم واقعی زندہ ہو؟ کیا تمہاری روح میں کوئی تڑپ باقی ہے؟ کیا تمہیں اپنے اصل سے رشتہ باقی ہے؟
عالمی سطح پر اگرچہ ہزاروں بیانات دیے جا رہے ہیں، مگر اصل المیہ وہ ہے جو دلوں میں خاموشی کی صورت میں پنپ رہا ہے۔ فلسطین کی چیخ و پکار سننے کے لیے نہ صرف کان چاہیے، بلکہ ایک بیدار دل اور روشن ضمیر درکار ہے۔ وہ لوگ جو دجالی نظام کا حصہ بن کر مظلوم کو ظالم اور ظالم کو محافظ بنا کر پیش کر رہے ہیں، وہ ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جا رہے ہیں جہاں حق اور باطل کی پہچان ختم ہو جائے گی۔ یہی وہ نظام ہے جس کی نشاندہی صوفیاء کرام نے صدیوں پہلے کی — ایسا نظام جو نفس پرستی، دنیا پرستی اور روحانی مردنی کو فروغ دے کر انسان کو اس کے اصل مقام سے گرا دیتا ہے۔
آج جب اسرائیلی مظالم کو میڈیا “دفاع” کا نام دے رہا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ ہم اس دجالی دور کے بیچ کھڑے ہیں جہاں روشنی کو اندھیرا اور اندھیرے کو نور کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں صرف وہی لوگ حق کو پہچان سکتے ہیں جن کے دل زندہ ہیں، جن کی روحیں اولیاء اللہ کی تربیت میں پروان چڑھی ہیں، اور جنہوں نے عشقِ الٰہی کی خوشبو اپنے باطن میں بسائی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم حضرت علیؑ کی بصیرت، حضرت سلطان باھوؒ کی معرفت، اور حضرت سلطان محمد علی صاحب کی روحانی حکمت سے جُڑ جائیں، تاکہ ہم اس ظلمت کے طوفان میں روشنی کا ایک چراغ بن سکیں۔
فلسطینی قوم جس استقامت سے آگ، بھوک، پیاس اور شہادتوں کا سامنا کر رہی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان ابھی بھی زندہ ہے — شاید ہم سے زیادہ۔ ان کی آنکھوں میں جو یقین ہے، ان کے سجدوں میں جو سوز ہے، اور ان کے جنازوں میں جو نور ہے، وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ فتح ہمیشہ ظاہری طاقت سے نہیں، بلکہ باطنی استقامت سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے لہو سے ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ ہم نے اپنی روحانی وراثت کو ترک کر دیا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے دوبارہ حاصل کریں۔
یہ وقت احتجاج یا فقط دعاؤں کا نہیں، بلکہ مجاہدۂ باطن کا ہے۔ ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو بیدار کرنا ہو گا۔ ہمیں فقر کی اس راہ پر قدم رکھنا ہو گا جسے کاملین نے ہمیں دکھایا، تاکہ ہم اپنی ذات میں وہ روشنی پیدا کریں جو ظلمت کو کاٹ دے۔ ہم صرف زبان سے نہیں، بلکہ دل کی سچائی اور نیت کے اخلاص سے اس باطل نظام کو للکار سکتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم فلسطین کے مظلوموں کے لیے فقط آنسو نہ بہائیں، بلکہ ان کے درد کو اپنے وجود میں محسوس کریں۔ ان کی استقامت کو اپنے کردار میں ڈھالیں، ان کی قربانی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے ذکر، حضور کی محبت، اور اولیاء کی تعلیمات سے اپنے باطن کو اس حد تک منور کریں کہ ہم فقط تماشائی نہ رہیں، بلکہ کردار بن جائیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف اُمت کہلوانے پر قناعت نہ کریں، بلکہ امتِ محمدیہؐ کے سپاہی بن کر میدان میں اتریں — میدانِ روحانیت میں، میدانِ سچائی میں، میدانِ بصیرت میں۔
فلسطین کا ہر زخم ہمیں بلا رہا ہے، ہر لاش ہم سے سوال کر رہی ہے، ہر فضا میں گونجتی اذان ہم سے کہہ رہی ہے: “جاگو! ابھی وقت ہے!” اگر ہم نے اب بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں، اگر ہم نے اب بھی اپنے دلوں کو بیدار نہ کیا، تو کل یہی ظلم ہمارے دروازے پر دستک دے گا۔ آئیے! ہم اس ظلمت میں روشنی کا چراغ جلائیں، اس باطل نظام کے مقابلے میں فقر کا جھنڈا بلند کریں، اور دنیا کو بتائیں کہ امتِ محمدیہؐ ابھی زندہ ہے — اور زندہ رہے گی، جب تک اس کے دل میں عشقِ الٰہی کی چنگاری سلگتی رہے گی۔
Leave a Reply