Today ePaper
Rahbar e Kisan International

فلسطین کے حق میں احتجاج

Articles , Snippets , / Thursday, April 17th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

آج غزہ و فلسطین ایک بار پھر صیہونی بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ معصوم بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر اندھا دھند بمباری اور فائرنگ کے واقعات نے پوری مسلم دنیا کو غم و غصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ فلسطینی عوام پر ہونے والا ظلم کسی ایک قوم، مذہب یا علاقے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ انسانیت کے وقار اور ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں جب بھی مظلومیت کا ذکر آئے گا فلسطین کی بے بسی اور امت مسلمہ کی خاموشی ایک کربناک باب کے طور پر لکھی جائے گی۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔
فلسطین پر یہودی ریاست کے قیام کی سازش 1917ء میں بالفور ڈیکلیئریشن سے شروع ہوئی جب برطانوی سامراج نے فلسطین کو یہودی وطن بنانے کا وعدہ کیا۔ 1948ء میں اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد سے آج تک فلسطینی قوم مسلسل تشدد، جبری ہجرت، نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم تھم نہیں رہے۔ حالیہ مہینوں میں غزہ پر بمباری، اسپتالوں، اسکولوں، عبادت گاہوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے سے عالمی ضمیر بھی جھنجھوڑا جا رہا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔
مسلمانوں کے دل میں فلسطین کی حالت زار پر جو غم و غصہ ہے وہ فطری ہے۔ لیکن اس غصے کا اظہار حدود کے اندر رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف شہروں میں غیر ملکی فوڈ چینز کے ریسٹورنٹس پر پرتشدد حملے، توڑ پھوڑ اور جان لیوا واقعات نے اس احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ شیخوپورہ اور راولپنڈی کے واقعات میں نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ اس سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچا کیونکہ احتجاج کا رخ ظلم کے خلاف ہونا چاہیے، نہ کہ اپنے ہی معاشرے اور لوگوں کے خلاف ہونا چاہئیے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی اور ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے بجا طور پر اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ ایک مؤثر اور شرعی طور پر جائز قدم ہے، لیکن اس کی آڑ میں کسی شخص یا ادارے کی املاک یا جان کو نقصان پہنچانا شریعت کی رو سے سختی سے منع ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ “لا ضرر ولا ضرار” (نہ خود نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی کو نقصان دو) جیسے اصول پر عمل لازم ہے۔ جذبات میں آ کر توڑ پھوڑ اور فسادات اسلامی تشخص کے منافی ہیں۔
بائیکاٹ ایک خاموش لیکن مضبوط ہتھیار ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف معاشی بائیکاٹ کی کامیاب مثال ہمارے سامنے ہے۔ فلسطین کے حق میں اگر پوری دنیا کے مسلمان دانشمندانہ اور پُرامن طریقے سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو یہ ان کے لیے زہرِ قاتل بن سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیمی ادارے، مساجد اور علمی و ادبی حلقے اس شعور کی بیداری کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
فلسطینیوں سے یکجہتی صرف جذباتی نعرے بازی سے ممکن نہیں بلکہ شعور، علم، حکمت اور اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں ایسے ہر اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے ہمارا احتجاج بدنام ہو یا دشمن کو اس کا فائدہ ملے۔ ایک طرف مظلوم فلسطینی بچہ خون میں لت پت ہے اور دوسری طرف ہم اپنی گلیوں میں اپنے ہی بھائیوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا کر اُن مظلوموں کا مقدمہ کمزور کر رہے ہیں۔
اسلام ہمیں ظلم کے خلاف اٹھنے اور مظلوم کی حمایت کا حکم دیتا ہے، لیکن طریقہ کار وہی ہونا چاہیے جو نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سے ہمیں ملتا ہے۔ صبر، حکمت، استقامت اور قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے۔ فلسطین کے لیے ہماری دعا، ہماری آواز، ہمارا شعور، ہمارا قلم اور ہمارا بائیکاٹ ، سب کچھ لازم ہے مگر صرف اس حد تک جو اسلام اور انسانیت کے دائرہ اخلاق میں آتا ہو۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International