از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو اُس وقت سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جب وہ ہندوستان کاحصہ ہوا کرتا تھا۔امیر زمینداروں سلطان فاطمہ اور سلطان محمد خان کے بیٹے تھے ۔ مگر بدقسمتی سے 1913 میں ان کی پیدائش کے دو سال بعد ہی والدین انتقال فرماگئے۔ اس کے باوجود ان کا بچپن ایک امیر طبقے میں ہی گزرا۔ ان کے والد ایک نامور وکیل اور ایک ممتاز ادبی حلقے کے رکن تھے جس میں پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال بھی شامل تھے۔
1916 میں فیض نے مشہور علاقائی اسکول مولوی ابراہیم سیالکوٹی میں داخلہ لیا اور بعد میں انہیں اسکاچ مشن ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں انہوں نے اردو، فارسی اور عربی سیکھی۔ انہوں نے 1932 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے عربی میں بیچلر کی ڈگری اور 1932 میں ہی انگریزی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
بعد میں انہوں نے اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں دوسری ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1935 میں گریجویشن کے بعد فیض نے امرتسر کے ایم اے او کالج اور پھر لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں پڑھانا شروع کیا۔
فیض کی ابتدائی نظمیں محبت اور خوبصورتی پر روایتی، ہلکے پھلکے موضوعات پر تھیں، لیکن لاہور میں انھوں نے سیاست، انسانیت میں برابری اور موضوعاتی روابط کو تلاش کرنا شروع کیا جسے وہ زندگی اور شاعری دونوں کے لیے بنیادسمجھتے تھے۔ اس دوران انہوں نے برطانوی تارکین وطن ایلس جارج سے بھی شادی کی جو کہ اسلام قبول کر چکی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ 1942 میں انہوں نے پڑھانا چھوڑ دیا اور برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کرلی ،جس کے لیے انھیں دوسری جنگ عظیم میں خدمات کے لیے برٹش ایمپائر تمغہ بھی ملا تھا۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد، فیض نے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور سوشلسٹ انگریزی زبان کے اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بن گئے۔
9 مارچ 1951 کو فیض کو فوجی افسران کے ایک گروپ کے ساتھ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور ان پر بغاوت کی ناکام کوشش کا الزام عائد کردیا گیا، جو راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ انہیں موت کی سزا سنائی گئی لیکن اُس پر عمل نہیں ہوا ۔۔شکر سد شکر ۔ لیکن رہا ہونے سے پہلے چار سال جیل میں گزارنا پڑا۔ ان کے دو شعری مجموعے، دست صبا اور زندہ نامہ، جیل میں زندگی کے بارے میں ہیں، جسے انہوں نے مختلف زاویے سے دنیا کو دیکھنے کا موقع سمجھا اور پھر اُس پر خوب لکھا۔ رہائی کے بعد پاکستان میں رہتے ہوئے، فیض کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیشنل کونسل آف آرٹس میں تقرر کیا۔ فیض کی نظموں کا روسی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اسطرح اُن کی نظموں کو روسی زبان میں بھی خوب پذیرائی ملی جس کے نتیجے میں انہیں 1963 میں لینن امن انعام سے نوازاگیا۔
1964 میں فیض کراچی میں آباد ہوگئے اور عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی معتبر رسائل اور اخبارات کے ایڈیٹر اور مصنف کے طور پر کام کیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران، انہوں نے وزارت اطلاعات کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں اور پاکستان، بھارت اور بعد میں بنگلہ دیش بننے والے خونریزی پر غم و غصے کی طاقتور نظمیں لکھیں۔ تاہم، جب ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا تو فیض کو بیروت، لبنان جانے پر مجبور کیا گیا۔ وہاں انہوں نے میگزین لوٹس کی ایڈیٹنگ کی اور اردو میں شاعری کرتے رہے۔ وہ 1982 تک جلاوطنی میں رہے۔ نوبل انعام کے لیے نامزد ہونے کے فوراً بعد 1984 میں لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اپنی ہنگامہ خیز زندگی کے دوران بھی فیض مسلسل لکھتے رہے اور شائع بھی ہوتے رہے۔ اور یوں آپ ہندوستان اور پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے جدید اردو شاعر بن گئے۔ اگرچہ انہوں سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے بہت بے اختیار ہوکر نظمیں لکھیں اور مشکل اور ٹیبو موضوعات کو اختیار کیا لیکن اس کے باوجود ان کی نظمیں سادہ بول چال کا لہجہ برقرار رکھتی ہیں، جس سے اشرافیہ اور ان کے خیالات کے درمیان تناؤ پیدا ہوتارہا۔ فیض کو خاص طور پر غزل جیسی روایتی اردو شاعری کو سیاسی اور سماجی موضوعات کو شامل کرکے روایتی موضوعاتی کو ایک بہت زیادہ وسعت دینے کی ان کی قابل ذکر صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Leave a Reply