(تحریر احسن انصاری )
فیڈل کاسترو کیوبا کی تاریخ میں ایک نمایاں شخصیت تھے، جنہوں نے تقریباً پانچ دہائیوں تک ملک کی قیادت کی۔ بطور انقلابی رہنما، وزیر اعظم اور صدر، انہوں نے کیوبا کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کو مکمل طور پر بدل دیا۔ ان کی پالیسیاں دیرپا ثابت ہوئیں، جس نے کیوبا کو سامراجیت کے خلاف مزاحمت کی علامت اور ایک منفرد سوشلسٹ ریاست بنا دیا۔
فیڈل الیجاندرو کاسترو روز 13 اگست 1926 کو بیران، کیوبا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ہوانا میں قانون کی تعلیم حاصل کی، جہاں وہ سیاسی طور پر متحرک ہوئے۔ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ آمر، فلگینسیو باتیستا کی حکومت کی مخالفت کی۔ 1953 میں، انہوں نے مونکاڈا بیرکس پر حملہ کیا، جو ناکام ہوا، اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد 1955 میں وہ جلاوطنی اختیار کر کے میکسیکو چلے گئے، جہاں انہوں نے چے گویرا سمیت دیگر انقلابیوں کے ساتھ 26 جولائی موومنٹ کی بنیاد رکھی۔
1956 میں، کاسترو اور ان کے ساتھی کیوبا واپس آئے اور باتیستا حکومت کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ کئی سال کی جدوجہد کے بعد، وہ یکم جنوری 1959 کو کامیاب ہوئے اور باتیستا کا تختہ الٹ دیا، جس کے بعد کاسترو نے قیادت سنبھالی۔ اقتدار میں آنے کے بعد، کاسترو نے کیوبا کو ایک سوشلسٹ ریاست بنانے کے لیے بڑی اصلاحات کیں اور ان کی نمایاں خدمات کو تاریخ میں رقم کر دیا ۔
کاسترو نے غیر ملکی ملکیت والی صنعتوں، خاص طور پر امریکی کنٹرول شدہ کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور زمین غریب کسانوں میں تقسیم کی۔ ان کی حکومت نے عوام کو مفت رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کیں، جس سے معاشرتی ناہمواری میں کمی آئی۔ تاہم، ان پالیسیوں کے باعث امریکہ نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں، جس سے معیشت متاثر ہوئی۔
کاسترو کی سب سے بڑی کامیابیوں میں تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں۔ ان کی حکومت نے تعلیم کو مفت اور عام کیا، جس کی بدولت کیوبا میں شرح خواندگی دنیا میں سب سے زیادہ ہو گئی۔ اسی طرح، صحت کا نظام بھی ترقی یافتہ بنایا گیا، جہاں تمام شہریوں کو مفت علاج فراہم کیا گیا اور کیوبا نے عالمی سطح پر بہترین ڈاکٹر تیار کیے۔ کاسترو نے امریکہ کے تسلط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور سرد جنگ کے دوران سوویت یونین سے اتحاد کر لیا۔ اس کی وجہ سے کئی اہم واقعات پیش آئے، جیسے 1961 میں امریکہ کی حمایت یافتہ بے آف پگز حملہ کی ناکامی اور 1962 میں کیوبن میزائل بحران، جس نے دنیا کو جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود، کاسترو نے کیوبا کی خودمختاری برقرار رکھی۔ کاسترو کے دور میں کیوبا نے دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی حمایت کی۔ کیوبن فوج نے انگولا، ایتھوپیا اور نمیبیا میں سامراجی طاقتوں کے خلاف آزادی کی جنگوں میں مدد فراہم کی۔ اس کے علاوہ، کیوبا نے طبی شعبے میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں اور غریب ممالک کو ہزاروں ڈاکٹر اور طبی امداد بھیجی۔
کاسترو کی قیادت متنازع رہی۔ ان کی حکومت پر سیاسی آزادیوں کو دبانے، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور مخالفین کو قید کرنے کے الزامات لگے۔ ہزاروں کیوبن شہری معاشی مشکلات اور سیاسی پابندیوں کے باعث امریکہ فرار ہو گئے۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، کیوبا کی معیشت مزید بحران کا شکار ہو گئی اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
فیڈل کاسترو، سابق کیوبن رہنما، نے اپنی زندگی کے دوران 600 سے زائد قتل کی کوششوں سے بچاؤ کیا، کیوبن انٹیلی جنس اور سابق حکام کے مطابق۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کئی کوششیں سی آئی اے اور مخالف کیسٹرو گروپوں نے کیں، خاص طور پر سرد جنگ کے دوران۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، کاسترو تقریباً پانچ دہائیوں (1959–2008) تک اقتدار میں رہے اور 2016 میں 90 سال کی عمر میں فیڈل کاسترو نے 2008 میں صحت کی خرابی کے باعث اقتدار چھوڑ دیا اور قیادت اپنے بھائی، راؤل کاسترو کے سپرد کر دی۔ وہ 25 نومبر 2016 کو وفات پا گئے، لیکن ان کا اثر آج بھی کیوبا میں نمایاں ہے۔ ان کے حامی انہیں ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، جنہوں نے غریبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، سامراجیت کے خلاف ڈٹے رہے اور قوم کو ایک مضبوط شناخت دی۔ دوسری طرف، ناقدین انہیں ایک آمر سمجھتے ہیں، جنہوں نے آزادیوں کو محدود رکھا۔چاہے کوئی انہیں پسند کرے یا تنقید کرے، فیڈل کاسترو کیوبا اور عالمی سیاست کی ایک ایسی شخصیت تھے جن کے اثرات ہمیشہ محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ ان کی قیادت نے کیوبا کو ایک منفرد سوشلسٹ ماڈل میں تبدیل کر دیا، جو دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے ایک مثال بن گیا، جبکہ حکمرانی، آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے کئی سوالات بھی جنم دیے۔
Leave a Reply