(تحریر احسن انصاری)
ہر سال 25 دسمبر کو قوم بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی پیدائش کا دن مناتی ہے۔ یہ دن محض ایک رسمی تقریب نہیں بلکہ اس عظیم رہنما کی زندگی، افکار اور آئینی جدوجہد پر غور و فکر کا موقع ہے، جن کی قیادت نے برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر بدل دی۔ قائدِاعظم جذباتی نعروں کے قائل نہیں تھے بلکہ قانون، دلیل اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے خود اپنی سیاسی سوچ کی وضاحت ان الفاظ میں کی: ’’میں سب سے پہلے اور آخر تک ایک آئین پسند انسان ہوں۔‘‘
محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ کم عمری ہی سے ان میں نظم و ضبط، خود اعتمادی اور فکری پختگی نمایاں تھی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ انگلستان گئے اور لنکنز اِن سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہاں کی قانونی تربیت نے ان کے ذہن میں جمہوریت، پارلیمانی نظام اور قانون کی بالادستی کے اصول راسخ کر دیے، جو بعد ازاں ان کی سیاسی جدوجہد کی بنیاد بنے۔
قائدِاعظم نے عملی سیاست کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا اور ابتدا میں ہندو مسلم اتحاد کے بھرپور حامی رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دونوں قومیں باہمی تعاون سے برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کر سکتی ہیں۔ 1916ء میں لکھنؤ پیکٹ ان کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا، جس میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق تسلیم کیے گئے۔ اس دور میں انہوں نے امید اور ہم آہنگی کے جذبے کے تحت کہا تھا کہ ’’کانگریس اور مسلم لیگ کو ہندوستان کے مفاد میں مل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘ انہی خدمات کے باعث انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی حالات نے قائدِاعظم کو سخت مایوس کیا۔ اکثریتی سیاست کے فروغ اور مسلمانوں کے مفادات کو نظرانداز کیے جانے سے انہیں احساس ہوا کہ محض جمہوریت، بغیر آئینی تحفظ کے، انصاف فراہم نہیں کر سکتی۔ چنانچہ 1929ء میں انہوں نے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور واضح کیا کہ ’’جمہوریت ایسا نظام نہیں ہونا چاہیے جس میں اکثریت ہمیشہ اقلیت کو دبائے رکھے۔‘‘ یہ نکات دراصل مسلمانوں کے سیاسی تحفظ کا آئینی خاکہ تھے۔
1937ء کے صوبائی انتخابات نے قائدِاعظم کی سیاسی سوچ میں فیصلہ کن تبدیلی پیدا کی۔ کانگریس کے زیرِ اقتدار صوبوں میں مسلمانوں کو اقتدار سے مکمل طور پر باہر رکھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ مسلمان محض ایک عددی اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے 1938ء میں کہا کہ ’’اسلام اور ہندو مت محض مذاہب نہیں بلکہ دو الگ سماجی نظام ہیں۔‘‘ یہی سوچ آگے چل کر دو قومی نظریے کی بنیاد بنی۔ یہ نظریہ 23 مارچ 1940ء کو ایک واضح سیاسی مطالبے کی صورت اختیار کر گیا، جب آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور منظور کی۔ اس موقع پر قائدِاعظم نے تاریخی خطاب میں کہا کہ ’’ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی رسم و رواج اور تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ اس اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک واضح سمت دی اور پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔
1940ء سے 1947ء تک قائدِاعظم نے نہایت مشکل حالات میں مسلم لیگ کی قیادت کی۔ شدید علالت اور سیاسی دباؤ کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ انہیں اپنے مؤقف کی حقانیت پر کامل یقین تھا، جس کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا: ’’دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔‘‘
بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ قائدِاعظم نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نئے ملک کے خدوخال واضح کیے۔ انہوں نے مذہبی آزادی اور مساوی شہریت کی ضمانت دیتے ہوئے کہا: ’’آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں… ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔‘‘ یہ خطاب پاکستان کی جمہوری اور آئینی روح کا مظہر ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائدِاعظم نے قوم کو بار بار یاد دلایا کہ آزادی صرف آغاز ہے، اصل کام اب ریاست کی تعمیر ہے۔ ان کا واضح پیغام تھا کہ ’’پاکستان بن گیا ہے، لیکن اسے ابھی تعمیر کرنا ہے۔‘‘ وہ بدعنوانی اور اقربا پروری کے سخت مخالف تھے اور خواتین کے کردار کو قومی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ ’’کوئی قوم اس وقت تک ترقی کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتی جب تک اس کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔‘‘
قائدِاعظم محمد علی جناحؒ 11 ستمبر 1948ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کے افکار آج بھی قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کا آخری پیغام آج بھی اسی قوت سے گونجتا ہے کہ ’’ایمان، نظم و ضبط اور بے لوث خدمت کے ساتھ کوئی مقصد ناممکن نہیں۔‘‘ قائدِاعظم کی یومِ پیدائش پر اصل خراجِ تحسین یہی ہے کہ ہم ان کے افکار کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ وہ صرف پاکستان کے بانی ہی نہیں بلکہ اس کے آئینی معمار اور اخلاقی رہنما بھی تھے۔ پاکستان انصاف، مساوات اور قانون کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، اور اس خواب کی تکمیل آج بھی پوری قوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
Leave a Reply