Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مال کی حوس فتنہ اور اسی فتنے کانام دنیا ہے

Articles , Snippets , / Sunday, May 11th, 2025

rki.news

ظفر اقبال ظفر
دنیا کی بناوٹ کو اس کے وجود کے اعتبار سے دیکھتا ہوں تو زمین پر ہوئی ساری کی ساری تخلیق قدرت کی مصوری کا پتا دیتی ہے اور خدا کو جاننے کے تناظر میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خدا کاسب سے پسندیدہ مشغلہ تخلیق ہی رہا ہے اور ہر تخلیق اپنی ابتدا سے ہی اپنے حسن پر برقرار کھڑی ہے اور زمین کا سارا انتظام انسانی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا ہوا ہے تو یہ جو پانی پہ زمین کا تخت انسان کے لیے سجایا گیا ہے اس پہ دنیا نام کی کیا حقیقت ہے جس کو اس کے بنانے والے نے بھی برائیوں فتنوں خرابیوں حقیر اور ناجانے کیا کیا ناپسندیدہ القاب سے پکارا بتایا سمجھایا ہے تبھی تو خدا کے محبوب بندوں نے دنیا کبھی دنیا بنانے والے سے بھی نہیں مانگی۔ میں بہت غور و فکر اور ذاتی زندگی کے تجربے سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا نام کی ساری خرابیوں کو جمع کرکے اسے کوئی نام دیا جائے تو وہ مال و دولت ہی ہوگا جس سے دنیا کے سارے فتنے رونما ہوتے ہیں ویسے تو ایمان والوں کے لیے دولت کے علاوہ بھی کئی صورتوں کو فتنے کا نام دیا گیا ہے مگر جس نے سب سے زیادہ سکون انسانی برباد کیا وہ مال ہی ہے جسکی غیرموجودگی نے اچھوں کو برا کر دیکھایا اورموجودگی نے بروں کو اچھا بنا کر پیش کیا۔ اصل میں دنیا ہی ہے مال کا نام جس کی حوس ایمان ہی کیا پورے کے پورے انسان کو ہی کھا جاتی ہے تبھی یہ انسان نگلنے والی بلا سے نفرت کے تناظر میں خدا اور خدا کے بندوں کے سخت اقوال خوب وضاحت کرتے ہیں حدیث مبارکہ ہے کہ دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے قول علی ؓہے کہ دنیا میرے نزدیک ایسے ہے جیسے سور کی انتڑیاں جو کوڑھے کے ہاتھوں میں ہو۔
جس انسان کی جائز ضرورتوں کو اس کے لیے آسان رکھ کر اسے مال کی حوس سے آزاد کردیا گیا اُس کی غربت بھی بادشاہی کا اک روپ ہے اور جیسے ضرورتوں سے زیادہ ما ل دے کرمزید مال کی حوس میں جکڑ دیا گیا اس شخض کی اپنی قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے میں نے لاکھوں کرڑوں کے ایسے کئی مالک دیکھے ہیں جن کے پاس مال تو ہے مگر خود دوکوڑی کے بھی نہیں ہوتے ان بے قیمت لوگوں کو پا کر میں سوچتا تھا دنیا جتنی خود گری ہوئی ہے اس کا انتخاب خود سے زیادہ گرے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں یعنی دنیا اُنہی کے پاس جاتی ہے جو دنیا کے مزاج کے ہوتے ہیں خوش قسمت ہیں وہ روحیں جنہیں دنیا راس ہی نہیں آتی اور وہ دنیاوی نظام کو ٹھکرا کر آسمانی دنیا کے دھیان میں رہتے ہیں جنہیں لوگوں نے غربت کی نفرت میں ددھکار دیا وہی لوگ آسمان والے کے لاڈلے ٹھہرے ہیں۔ دنیا کی مشکلیں صبر کرنے والوں کے لیے اگلے جہان کی آسانیاں ہیں مگر میں ایمان و انسان کے سارے رشتے کھا جانے والی دولت نامی بلا کی اتنی اہمیت کیوں بنائی پر مبنی سوال بارگاہ خداوندی میں کرتا تو جواب آتاکہ ایمان صورت حسینی میں جتنی نایاب و پاکیزہ دولت ہے اسے آزمانے کے لیے یزیدی دنیا ہی درکار تھی اپنے اردگرد کی دنیا دیکھئے مال کے چکر میں ایمان کی بدصورتی کی نمائش لگا کر بیٹھی ہے دولت دنیا نے انسان کے ہاتھوں ہی انسان کو بے قیمت بنا کر رکھا دیا انسانیت کی جگہ کثرت مال دیکھ کر عزت و اہمیت دی جاتی ہے جبکہ یہ عزت و اہمیت دولت کی طرح جھوٹ کی وہ تصویر ہے جیسے مفاد کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے۔
کثرت زر کی حوس میں ڈوبی بدبودار رُوحیں حقوق کی زمین پہ فساد کی جڑ ہیں ان کی زندگی کا واحد اصول۔ پیسا ہو چاہے جیسا ہو۔ یہ قدرت کی طرف سے رکھا گیا حلال بھی اپنی حوس زدہ سوچ سے حرام بنا کر برکت کی توہین کے گنگار لوگ ہیں اسلامی معاشرے کا سب سے بھیانک چہرہ اُن لوگوں کا ہے جواسلامی حیلے میں دنیا جمع کرنے کے لیے اخلاقی شرعی قانون کی حرمت پامال کرتے ہیں مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر شرافت کا ڈھونگ کرتے ہیں جبکہ ان کی شرافت شر اور آفت کا مجموعہ ہوتی ہے میں نے پانچ وقت کے حرام خور نمازی بھی دیکھے ہیں جو نہ نماز چھوڑتے ہیں نہ حرام چھوڑتے ہیں ان کی عبادت عبادت نہیں عادت ہے جو ان کی اندر کی حرام حوس کو مارنے پربے اثر رہتی ہے ان پر بات کی جائے تو یہ اپنے بدکردار کی نشاندہی کوتوہین مذہب سے جوڑ کر اللہ کے بدمعاش بن جاتے ہیں دنیا کے عاشق دنیا کے حیلے میں ہی کماؤ دین کا لبادہ اُوڑھنا ہے تو دین کوکردار میں اپناؤ خریدا ہوا مال واپس اور تبدیل کرنے کے ساتھ شرعی منافع رکھوکیا یہ غرض مال دنیا کی منافقت نہیں کہ خریدتے وقت عیب نکالیں جائیں اور وہی چیز فروخت کرتے ہوئے تعریفیں بیان کی جائیں
اپنی دکانوں کے باہر لوگوں کا راستہ کرایے پر دینے والوں کو اس حدیث پر ایمان کیوں نہیں کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے راستے کی جگہ پہ تو نمازتک نہیں ہوتی جب سب سے افضل عبادت جائز نہیں ہوتی تو روزی کیسے جائز ہو سکتی ہے اس عمل سے منسلک دونوں افراد حرام کا شکار ہیں طالب دنیا کے پھیلائے فتنوں پہ جتنی بھی بات کرو یہ پھیلتی ہی چلی جائے گئی آپ کے اپنے زہن میں بھی بے شمار حوالے آ رہے ہوں گے جو روزمرہ کی زندگی میں اپنے معاشرے کے طرزعمل سے سب کو نظر آتے ہیں ان ساری خرابیوں پر بات کرنے کی سمجھداری تو سبھی رکھتے ہیں مگراصل ضرورت اس بات کی ہے جس سے اصلاح کا ایسا نظام کیسے بنایا جاسکے جس سے انسان انسان کو حوس دنیا میں ڈسنا بند کر دیں اس کے لیے پہلے تو دنیا کی اُس نفرت کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو خدا اور خدا کے محبوب بندوں میں پائی جاتی ہے۔یہ کیامسلمانیت کی بدقسمتی ہے کہ آسمانی معیار کی سوچ کو چھوڑ کر زمینی خرابیوں کو اصول زندگی بنا لیا جائے مصنوعی مہنگائی اور زمینی بے روزگاری کے طوفان کے آگے پل باندھنے کی بجائے اس کے نئے راستے اُس جانب کھولے جائیں جہاں مجبور بے بس انسان بستے ہیں اخلاقی قدروں کو تباہ کرنے والے حالاتوں سے سمجھوتہ کرکے اوپر کے ظلم نیچے والوں پہ تقسیم کرنے کی بجائے ظالم کو اصلاح پہ مجبور کیا جائے ریاست کی ترقی کے لیے انسانیت کے اخلاقی کردار کو مسخ کرنے والے صاحب اختیار لوگوں کی جگہ صاحب ضمیر لوگوں کو بیٹھایا جائے غربت اگر اتنی ہی بری ہوتی تو خدا اپنے ہرمحبوب بندے کو یہ تحفے میں نہ دیتا بدکردار دولت مندی کی بجائے باکردار غربت پہ فخر کرنا شیوہ پیغمبری ہے حلال و جائز زرائع سے روزی کمانا عین عبادت ہے اور اس عبادت کو قضا کرنے والے کی خدائی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی دین کے نام پر لوگوں کی آخرت کی فکر کرنے کی بجائے لوگوں کی دنیا دین کے مطابق بنانا دین سے سب سے بڑی خدمت ہے دنیاوی نظام کو دینی نظام میں ڈھالنا ہی آخرت کی تیاری ہے دنیاوی زندگی میں آسانی ہے۔ بندہ کسی بندے کا گنہگار نہ نکلا تو بخش دیا جائے گا مگرکسی بندے کا گنہگار نکلاتوہمیشہ ہمیشہ کی زلتوں میں جکڑ دیا جائے گا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International