Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مالی وسائل کی قلت اور ترقیاتی بجٹ کا کم استعمال

Articles , Snippets , / Tuesday, May 13th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے شدید مالی دباؤ اور ساختیاتی مسائل کا شکار رہی ہے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر جاری ترقیاتی منصوبے جو عوامی فلاح و بہبود، انفراسٹرکچر، توانائی اور آبی وسائل جیسے کلیدی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، اکثر مالی وسائل کی کمی، منصوبہ بندی کی کمزوریوں اور بروقت فیصلوں کے فقدان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مالی سال 2025ء کے ابتدائی دس ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران سامنے آنے والے اعداد و شمار اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اپنے نظر ثانی شدہ ترقیاتی بجٹ کا صرف 41 فیصد ہی خرچ کر سکی ہے۔

پاکستان میں ترقیاتی منصوبہ بندی کی روایت قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے ایک اہم سرکاری حکمتِ عملی کے طور پر اپنائی گئی۔ 1950ء کی دہائی سے لے کر اب تک متعدد پانچ سالہ منصوبے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) بنائے گئے جن کا مقصد معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ لیکن ہر دور میں ایک مسئلہ ہمیشہ غالب رہا: بجٹ تو مختص ہو جاتا ہے مگر اس پر عملدرآمد کمزور اور غیر مؤثر رہتا ہے۔ اس تاریخی پس منظر کے تناظر میں موجودہ صورتحال محض وقتی یا حادثاتی نہیں بلکہ ایک مسلسل انتظامی اور ساختیاتی کمزوری کا نتیجہ ہے۔

رواں مالی سال 2025ء کے لیے ترقیاتی اخراجات کے لیے وفاقی حکومت نے نظر ثانی شدہ بجٹ میں 1100 ارب روپے مختص کیے تھے لیکن دس ماہ گزرنے کے باوجود صرف 448.60 ارب روپے خرچ کیے جا سکے جو کہ محض 41 فیصد ہے۔ یہ نہ صرف منصوبہ بندی میں کمزوری بلکہ ادارہ جاتی صلاحیتوں کے بحران کی بھی غمازی کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ بقیہ دو ماہ میں باقی 59 فیصد رقم کے مؤثر استعمال کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جو کہ بد انتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔

صوبہ جاتی و علاقائی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے ضم شدہ اضلاع نے ترقیاتی بجٹ کا محض 36 فیصد استعمال کیا ہے۔ آبی وسائل کے شعبے کو پی ایس ڈی پی کے تحت سب سے زیادہ یعنی 170 ارب روپے دیے گئے تھے، جن میں سے صرف 72.5 ارب روپے خرچ ہوئے۔ توانائی کے شعبے میں 94.5 ارب روپے مختص کیے گئے، لیکن صرف 53 ارب روپے (یعنی 55 فیصد) خرچ ہو سکے۔ ماحولیات، پلاننگ کمیشن، مواصلات، انسدادِ منشیات، مذہبی امور اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل جیسی وزارتوں نے یا تو معمولی رقم خرچ کی یا بالکل نہیں کی جو انتظامی غفلت کے ساتھ ساتھ نااہلی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس نااہلی کے کئی بنیادی اسباب ہیں جن میں بیوروکریسی کا سست روی سے کام لینا سرفہرست ہے۔ فائلوں کی منظوری میں تاخیر، فنڈز کے اجرا میں غیر ضروری پیچیدگیاں اور عملدرآمد کے مراحل میں تاخیر بجٹ کے کم استعمال کا بنیادی سبب ہیں۔ دوسری وجہ سیاسی ترجیحات کا فقدان ہے، اکثر ترقیاتی منصوبے حقیقی ضروریات کے بجائے سیاسی مقاصد کے تحت بنائے جاتے ہیں، جن کا میدانِ عمل میں تسلسل ممکن نہیں ہوتا۔ تیسری بڑی وجہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی ہے۔ وفاقی، صوبائی، اور ضلعی سطح پر اداروں کے درمیان روابط کی کمزوری وسائل کے مؤثر استعمال میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ چوتھی بڑی وجہ مانیٹرنگ و ایویلوایشن کا فقدان ہے۔ بجٹ کے استعمال اور منصوبوں کی پیش رفت پر مؤثر نگرانی نہ ہونے کے باعث کمزور کارکردگی پر کوئی جوابدہی نہیں ہوتی۔

لیکن اس کے لیے ممکنہ حل بھی ہے۔ سب سے پہلے ترقیاتی بجٹ کے اجراء کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے تاکہ غیر فعال اداروں کو اصلاح پر مجبور کیا جا سکے۔ ڈیجیٹل بجٹ ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے اخراجات اور نتائج کی نگرانی کی جائے۔ مقامی حکومتوں کو فعال کر کے ترقیاتی منصوبوں کا بوجھ نچلی سطح پر منتقل کیا جائے تاکہ فوری اور مؤثر فیصلے کیے جا سکیں۔ سال کے آغاز ہی میں فنڈز کا اجرا یقینی بنایا جائے تاکہ منصوبوں کو وقت پر شروع کیا جا سکے۔ پبلک پارٹیسپیشن ماڈل کے تحت عوام کو ترقیاتی عمل میں شامل کیا جائے تاکہ منصوبے ان کی اصل ضروریات کے مطابق ہوں۔

ترقیاتی بجٹ کا صرف 41 فیصد استعمال، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے نہ صرف ایک معاشی مسئلہ ہے بلکہ یہ گورننس کے بحران کی علامت بھی ہے۔ مالی وسائل کی قلت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے مگر اس سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو وسائل دستیاب ہیں وہ بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا رہے۔ اگر وفاقی و صوبائی ادارے اس طرزِ عمل پر نظرِ ثانی نہ کریں تو ترقی کا خواب خواب ہی رہے گا اور عوام کی فلاح محض اعداد و شمار کی گمبھیر گتھیوں میں دفن ہو جائے گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International