تحریر آصف خان
ہر سال مائوں کاعالمی دن منانے کے لیے مختلف ممالک میں ایک ہی دن مختص نہیں ہے۔ پاکستان اور اٹلی سمیت مختلف ملکوں میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتاہے جبکہ کئی دیگر ممالک میں یہ دن جنوری، مارچ، اکتوبر یا نومبر میں مناکر مائوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ماں کی عظمت واہمیت کو محض ایک دن تک محدود کردیا جائے کیونکہ اس ہستی نے بھی صرف ایک دن ہمار ا خیال نہیں رکھا بلکہ جوان ہونے اور شادی شدہ ہونے کے بعد بھی اپنے بچوں اور بچوںکے بچوںکا خیال رکھتی چلی آتی ہے۔
ماں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنے والدین کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے تو عنقریب ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق یورپی ممالک میں بوڑھے والدین کی اکثریت تو محض ردی کا سامان بن جاتی ہے، جہاں جگہ جگہ اولڈ ایج ہومز قائم ہیں اور حکومتی خرچ پر ان بزرگوں کی کفالت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ کلچر اب ہمارے اسلامی ممالک اور معاشرے میں بھی فروغ پا رہا ہے، جہاں بہت سے بوڑھے والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکار ہو کر اولڈ ایج ہومز کا راستہ دیکھتے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں کی صورت حال بھی بدل رہی ہے۔ ہماری اولاد کی شخصیت سازی میں گھر کا ماحول ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ہمارے بچوں کی شخصیت سازی اور کردار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرسید احمد خاں نے سیر فریدیہ میں تذکرہ فرمایا ہے کہ اچھی ماں ہزار اُستادوں سے بہتر ہے.
اکثر گھروں میں ٹیلی ویژن نے ماو¿ں کو اغواءکر رکھا ہے۔ مائیں اپنے بیٹے ، بیٹیوں کو پڑھائی پر مجبور کرتی ہیں اور خود ٹیلی ویژن پر فلموں، ڈراموں سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہم سب کو اس امر کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ماں کی گود اگر بچے کی پہلی درس گاہ ہے تو آج کا بچہ اس درسگاہ میں کیا سیکھ رہا ہے؟
ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ معصوم بچے پر سب سے گہرا اثراس کی ماں کا ہوتا ہے، اگر بچے پر اس کی ماں کے خوشگوار نیک اثرات پڑیں گے تو یقیناً اس کی روشنی بچے کے مقدر اور مستقبل کو روشن کرے گی اور وہ زندگی بھر اپنی ماں کی نصیحت کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ ماوں کے عالمی دن کی وساطت سے راقم کا یہ پیغام ہے کہ ماں
کو بچپن ہی میں اپنی اولاد کی اصلاح پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہئے۔ شیخ سعدی کا مشہور قول ہے کہ جو شخص بچپن میں ادب کرنا نہیں سیکھتا، بڑی عمر میں بھی اس سے بھلائی کی امید نہیں.
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
Leave a Reply