rki.news
تحریر: شکیب زبیری، لاس اینجلس، کیلیفورنیا
امریکہ میں زہران ممدانی کا نیویارک کا پہلا مسلمان میئر بننا بظاہر ایک تاریخی جمہوری کامیابی دکھائی دیتا ہے، مگر اگر اسے عالمی سیاست، صیہونی نفسیات اور طاقت کے عالمی ڈھانچے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض ایک عوامی جیت نہیں بلکہ ایک گہری نفسیاتی حکمتِ عملی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔
امریکی سیاسی نظام — اس کے انتخابی ادارے، میڈیا نیٹ ورکس، سرمایہ دارانہ عطیات کے ذرائع اور فکری تھنک ٹینکس — سب کسی نہ کسی درجے میں ان قوتوں کے زیرِ اثر ہیں جو آزادی و جمہوریت کے محافظ بن کر سامنے آتی ہیں مگر درحقیقت عوامی شعور کو اپنے طے کردہ فریم میں محدود رکھتی ہیں۔
اسی پس منظر میں زہران ممدانی کی جیت کو “طاقت کے نفسیاتی کھیل” (Dark Psychology) کی ایک مثال سمجھا جا سکتا ہے۔ طاقتور طبقے براہِ راست عوام کو دبانے کے بجائے ان کے اندر ایک مصنوعی آزادی اور خودمختاری کا احساس پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ فیصلے خود کر رہے ہیں، جبکہ ان کے شعور کی تشکیل اسی نظام کے اندر ہو رہی ہوتی ہے۔
صیہونی لابی عشروں سے امریکی سیاست، معیشت اور میڈیا پر اثر انداز رہی ہے۔ وہ مزاحمت کو ختم کرنے کے بجائے قابو میں رکھنے (Controlled Opposition) کا ہنر جانتی ہے۔ وہ ایسے چہرے سامنے لاتی ہے جو بظاہر نظام کے خلاف دکھائی دیتے ہیں مگر ان کی موجودگی نظام کے اندر ایک نفسیاتی ریلیف فراہم کرتی ہے، جس سے عوام کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی لا رہے ہیں، حالانکہ ان کی توانائی اسی نظام میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
زہران ممدانی کا انتخاب اسی حکمتِ عملی کی علامت ہے — ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد، فلسطین نواز شخص اگر نیویارک جیسے شہر میں میئر منتخب ہوتا ہے تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ “تبدیلی کا تاثر پیدا کرنے” (Illusion of Change) کی ایک علامتی کوشش ہے۔ بظاہر نظام بدلتا دکھائی دیتا ہے، مگر طاقت کے پرانے مراکز اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہ انتخاب ایسے وقت میں ہوا جب دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں اخلاقی حمایت بڑھ رہی ہے اور مغربی پالیسیوں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں صیہونی ذہنیت کے لیے براہِ راست اسرائیل نوازی کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا، لہٰذا ایک نئی حکمتِ عملی اپنائی گئی — ایسے چہرے سامنے لائے جائیں جو بظاہر انصاف، مساوات اور مظلومیت کے علمبردار ہوں مگر دراصل نظامِ ظلم کو اخلاقی جواز فراہم کریں۔
یہی وہ عمل ہے جسے “کنٹرولڈ ہمدردی” (Controlled Empathy) کہا جا سکتا ہے — عوام کو یقین دلانا کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے تاکہ حقیقی مزاحمت کا جذبہ جذباتی تسکین میں بدل جائے۔ صیہونی قوتیں انسانی نفسیات کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ نوجوان نسل انصاف و مساوات کے نعروں سے متاثر ہوتی ہے، اس لیے اگر ایک ایسا مسلمان رہنما لایا جائے جو انہی اصولوں کی بات کرے مگر ریاستی فریم کے اندر رہ کر، تو انقلابی قوتیں غیر مؤثر ہو جاتی ہیں۔
یہ حکمتِ عملی “Neutralization by Integration” یعنی مخالفت کو اداروں میں ضم کر کے غیر مؤثر بنانے کا فن ہے۔ جب مزاحمت کے نمائندوں کو ریاستی نظام میں شامل کر لیا جائے تو ان کی تیزی ماند پڑ جاتی ہے، اور تبدیلی کی روح ادارہ جاتی حدود میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
یہ عمل دراصل صیہونی طاقتوں کی ایک نفسیاتی سرمایہ کاری ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے خلاف اخلاقی فضا بن رہی ہے، لہٰذا وہ مظلوموں کے نمائندوں کو اپنے نظام میں شامل کر کے ایک نئی اخلاقی چادر اوڑھانا چاہتی ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کے ایک بڑے منصوبے “Moral Rehabilitation Project” یعنی دنیا کے سامنے خود کو متنوع اور انصاف پسند ظاہر کرنے کی کوشش کا حصہ ہے، حالانکہ عالمی فیصلے آج بھی انہی پرانے سامراجی نیٹ ورکس کے ہاتھوں میں ہیں۔
ممدانی کی جیت پر اسلامی دنیا میں جس طرح خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہ اسی نفسیاتی فریب کا حصہ ہے۔ اس سے قبل صادق خان (میئر لندن) اور براک اوباما کی کامیابی پر بھی یہی امیدیں باندھی گئیں، مگر انجام وہی نکلا — طاقت کا توازن جوں کا توں رہا۔
دنیا کے 53 مسلم ممالک کے عوام اپنی شناخت قومیت سے کرواتے ہیں — سعودی، پاکستانی، ایرانی یا مصری — تو امریکہ میں رہنے والا مسلمان بھی اپنی شناخت امریکی کے طور پر کروائے گا، نہ کہ محض مسلمان کے طور پر۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ممدانی یا کوئی بھی امریکی مسلمان رہنما مسلم دنیا کی تقدیر بدل دے گا، محض ایک خوش فہمی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکی کانگریس میں مسلمانوں کی اکثریت آ بھی جائے، تب بھی مسلم ممالک کی حالت نہیں بدلے گی، کیونکہ تقدیر تدبیر سے بدلتی ہے۔ مگر صدیوں سے ہمارے مذہبی طبقے نے عوام کو یہ یقین دلایا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے، خدا کی طرف سے ہوتا ہے، انسان کا کوئی کردار نہیں۔ یہی سوچ مسلمانوں کی فکری و عملی صلاحیتوں کو مفلوج کر چکی ہے۔
جب تک مسلمان اپنی دنیاوی اور مذہبی زندگی میں توازن پیدا نہیں کریں گے، ترقی ممکن نہیں۔ مغرب نے اسی وقت ترقی کی جب اس نے مذہب اور دنیاوی معاملات کے درمیان توازن قائم کیا۔ اگر مسلم دنیا واقعی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے دعا اور جذبات سے نکل کر عقل، تدبیر اور عمل کی راہ اپنانی ہوگی — ورنہ ہر نئی فتح محض ایک نفسیاتی کھیل ہی ثابت ہوگی۔
Leave a Reply