“ریاست ہمیشہ ایک طبقے کی آمریت ہوتی ہے۔” بلاشبہ لینن کا یہ قول آج کے پاکستان میں مزدور کی حالت زار کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ ہمارا ملک جہاں آئین کی کتابیں بھاری اور کاغذات سے بھری ہیں۔ وہاں مزدور کی زندگی آج بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو صرف لفظوں تک محدود ہے۔ ایک طرف کم سے کم تنخواہ 37,000 ہے۔اور دوسری طرف سرمایہ داروں کے دبدبے کے سامنے یہ قانون بے وقعت ہے۔
غریبوں کے لیے ہر دن ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ ان کے روزگار کا مسئلہ نہ صرف انہیں فاقوں پر مجبور کرتا ہے بلکہ ان کی کمزور ہڈیاں بھی اس ظلم کا نشانہ بنتی ہیں ۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ حکومت نے اپنے عوام کے لیے جو قوانین بنائے ہیں۔ وہ سرمایہ داروں کے لیے صرف کاغذ کا ٹکڑا ہیں۔
مزدور صبح کام پر پہنچتا ہے۔ مگر اس کی واپسی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ وہ سرمایہ داروں کی تجوریوں کو بھرنے کے لیے کام کرتا رہتا ہے۔ اس کے پسینے کی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔ یہ سچ ہے کہ مزدور کی محنت اور اس کے خون کا استعمال کر کے سرمایہ دار اپنی دولت کو بڑھا رہے ہیں۔
مزدور کی حالت ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کی آواز کو دباتی ہے۔ وہ قانون کا سہارا بھی نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ اس کو مہنگا پڑتا ہے۔ پاکستان کے قوانین میں یہ لکھا ہے کہ مزدور کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو۔ مگر حقیقت میں مزدور کی حالت ایک ایسی کہانی ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ یہ افسوسناک سچ ہے کہ جب تک ریاست اس ظلم کے خلاف نہیں کھڑی ہو گی، مزدور کا مقدر نہیں بدلے گا، اور اس کا حال بدلے گا نہیں
وقاص علی وکاس
Leave a Reply