rki.news
(تحریر عائشہ مظفر)
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence – AI) اکیسویں صدی کی سب سے اہم سائنسی اور ٹیکنالوجیکل پیش رفتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک اسے مستقبل کے سماجی و معاشی ڈھانچے کا بنیادی ستون قرار دے رہے ہیں۔ یہ محض ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ انسانی سوچ اور عمل کی ایسی توسیع ہے جو ہر میدان کو نئی جہت عطا کر رہی ہے۔ اگر اسے درست سمت میں استعمال کیا جائے تو یہ ترقی، خوشحالی اور بہتر معیارِ زندگی کی ضمانت ہے۔
مصنوعی ذہانت کی جڑیں بیسویں صدی کے وسط میں جا کر ملتی ہیں، جب سائنس دانوں نے مشین لرننگ اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے انسانی ذہانت کی نقل کا آغاز کیا۔ ابتدا میں یہ صرف سادہ الگورتھمز اور گیمز تک محدود تھی، لیکن آج یہ بڑے ڈیٹا، نیورل نیٹ ورکس اور خودکار نظاموں تک جا پہنچی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعی ذہانت معیشت اور ترقی کی رفتار بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
تعلیم کے شعبے میں AI کا کردار غیر معمولی ہے۔ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز، ورچوئل کلاس رومز اور ذاتی نوعیت کے تعلیمی ماڈیولز کے ذریعے طلبہ کو انفرادی صلاحیتوں کے مطابق تربیت دی جا رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی بدولت طلبہ کی کارکردگی کا تجزیہ، امتحانات کی خودکار جانچ اور فوری رہنمائی ممکن ہو گئی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیمی وسائل اور اساتذہ کی کمی ہے، یہ ٹیکنالوجی تعلیمی خلا کو پُر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
صحت کا شعبہ بھی مصنوعی ذہانت کے بغیر نامکمل نظر آتا ہے۔ کینسر، دل کے امراض اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص میں AI پر مبنی نظام غیر معمولی حد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بڑے اسپتالوں میں روبوٹ سرجری، ورچوئل نرسنگ اور بیماریوں کی پیش گوئی کے نظام رائج ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اگر یہ ٹیکنالوجی مقامی سطح پر استعمال کی جائے تو پسماندہ علاقوں کے مریضوں کو بڑے شہروں کے اسپتالوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔
عالمی معیشت میں AI کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک عالمی معیشت میں مصنوعی ذہانت کا حصہ 15 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ آٹومیشن اور روبوٹکس نے پیداواریت کو بڑھایا ہے اور صنعتی معیار کو بہتر بنایا ہے۔ فیکٹریوں میں مشین لرننگ اور روبوٹ استعمال کرنے سے لاگت میں کمی اور رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی برآمدات، زراعت اور مینوفیکچرنگ میں AI کو شامل کر کے عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرے۔
پاکستان کی معیشت کا بڑا دارومدار زراعت پر ہے۔ AI کی مدد سے کسان زمین کی زرخیزی، موسمی حالات اور پانی کے استعمال کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ جدید سینسرز اور ڈرونز کی بدولت فصلوں کی نگرانی ممکن ہے، جس سے پیداوار میں اضافہ اور نقصان میں کمی آ سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے نہایت اہم ہے جہاں خوراک کی قلت ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔
دفاعی میدان میں مصنوعی ذہانت نے دنیا کو ایک نئی دوڑ میں شامل کر دیا ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی اور خودکار ہتھیار اب عالمی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک طرف یہ ٹیکنالوجی دفاعی صلاحیت بڑھا رہی ہے، تو دوسری طرف اخلاقی اور قانونی سوالات کو بھی جنم دے رہی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالے اور AI پر مبنی دفاعی حکمت عملی اپنائے۔
مصنوعی ذہانت جہاں سہولتوں کا ذریعہ ہے، وہیں اس کے ساتھ کئی خدشات بھی وابستہ ہیں۔ سب سے نمایاں خدشہ روزگار کا ہے کیونکہ آٹومیشن کی وجہ سے کئی روایتی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ اسی طرح ڈیٹا کی سکیورٹی، پرائیویسی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ دنیا کے بڑے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اخلاقی اصولوں اور قانون سازی کے بغیر AI کو ترقی دی گئی تو یہ معاشرتی عدم توازن پیدا کر سکتی ہے۔
پاکستان میں مصنوعی ذہانت پر ریسرچ اور ترقی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ حکومت نے “نیشنل AI پالیسی” متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ اس شعبے کو قومی سطح پر فروغ دیا جا سکے۔ یونیورسٹیوں میں ڈیٹا سائنس اور AI پر مبنی پروگرامز شروع ہو رہے ہیں، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ نوجوان نسل کو اس شعبے کی تربیت دینا، ریسرچ سنٹرز قائم کرنا اور انڈسٹری کے ساتھ روابط مضبوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان بروقت اقدامات کرے تو یہ شعبہ ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مشینیں انسانی ذہانت پر حاوی ہو جائیں گی؟ دنیا کے کئی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر AI کو غیر ذمہ داری سے استعمال کیا گیا تو یہ انسانی فیصلوں کو کمزور کر سکتی ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم، صحت، معیشت اور سکیورٹی کے مسائل کو حل کرنے میں AI بہترین مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر مصنوعی ذہانت کو اخلاقی اصولوں، ذمہ دارانہ پالیسیوں اور شفاف قانون سازی کے ساتھ اپنایا جائے تو یہ یقیناً انسانیت کے لیے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو جدید دنیا کے ساتھ ہم قدم کر سکتی ہے بلکہ معاشی خوشحالی، بہتر معیارِ زندگی اور سماجی انصاف کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان آبادی کو اس میدان میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے تاکہ آنے والا کل واقعی روشن ہو۔
Leave a Reply