تازہ ترین / Latest
  Monday, October 21st 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

معاشرے میں تربیت کا فقدان

Articles , / Wednesday, May 8th, 2024

از قلم فاطمہ بنتِ لیاقت علی ( بورے والا)

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

آج جس موضوع پر میں بات کرنے جا رہی ہوں وہ ایک اہم موضوع ہے جس پر جتنی بات کی جائے کم ہے اور وہ ہے تربیت ۔ تربیت کیا ہے؟ تربیت کے کئی معنی ہیں مثلا پرورش کرنا، پالنا پوسنا، بڑھانا ،ڈسپلن  سکھانا،کسی کا بھرپور خیال رکھنا، تربیت کرنا اور کسی  چیز کو تدریجاً نشوونما دے کر حدِ کمال تک پہنچانے میں مدد کرنا وغیرہ۔ ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام کو ماننے والے، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام کے مطابق تربیت رجحان سازی، شخصیت سازی یا تناظر سازی کا عمل ہے۔ جس کا مقصد کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کرنا ہے۔  کہ وہ اپنے مقصد تخلیق سے وابستہ ہو کر خدا کی بندگی کے اعلی مرتبے کو حاصل کر سکے۔ اور جدید مہارتیں سیکھ کر معاشرے کے لئے مفید اور کار آمد فرد بن سکے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تربیت کا فقدان ایک انتہائی حد سے بڑھ چکا ہے۔ معاشرے میں بحرانوں اور بگاڑ کی ایک بہت حیوانوں سے بھی برتر ہوتا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر روز چڑھتا سورج ظلم کی ایک نئی داستان لے کر آتا ہے، آجاتا ہے۔ آئے روز زیادتی کی وارداتیں، مسلح حملے، جائیداد کے تنازعے پر قتل، چوری ڈکیتی سمیت ان گنت واقعات ہماری اخلاقی گراؤٹ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ یہ سب تربیت کی کمی کی وجہ سے، والدین کا بچوں کو وقت نا دینا، ان کی اصلاح نا کرنا، تعلیم میں کمی اور موبائل فون کا زیادہ استعمال بھی معاشرے میں تربیت کے فقدان کی اہم وجہ ہے۔ اگر ہم دیہات میں دیکھے تو تعلیم نا ہونے کے برابر ہے، مائیں پڑھی لکھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو صحیح طریقے سے تربیت نہیں دے پاتی، ان کو قرآن و سنت سے بارآور نہیں کراتی۔ بچے علم و ادب سے بہت دور ہوتے ہیں تو وہ بہتر شہری نہیں بن پاتے۔ نیپولین کا ایک مشہور قول ہے کہ:

“تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، اور میں تمہیں ایک ایسی قوم دوں گا جو دنیا کو فتح کرے گی۔”

ایک ماں کا پڑھا لکھا ہونا بچے کی تربیت پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ اگر ہم شہر کی بات کریں تو والدین اپنے بچوں کو وقت ہی نہیں دیتے، شاید وہ سوچتے ہیں کہ بے جا آزادی دے دی، بےشمار پیسہ دے دیا، دنیا و جہاں کی آسائشیں دے دی تو شاید یہی ان کی تربیت ہے۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل تربیت انہیں دین کا علم سکھانا، ان کو زندگی گزارنے کے اصول بتانا اور اپنا ضمیر زندہ رکھنے کی ترغیب دینا تربیت ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی انجان ہیں۔ بچوں کی شخصیت میں اخلاقی بحران اور تہذیبی اقدار کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غفلت ہے۔ ماں باپ اپنے مسائل میں مصروف ہیں۔ تیزی سے دوڑتی زندگی کی آزمائشوں سے نمٹنے میں وہ اپنے بچوں کو فراموش کیے جارہے ہیں۔ بچوں اور والدین میں سماجی دوری کی ایک اور بڑی وجہ موبائل فون بھی بن چکا ہے۔
آج کل ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ ایک ہی کمرے میں والدین اور بچے اپنے اپنے موبائل فونز میں مصروف ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے پاس ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں۔ میں نے اکٹ
ثر دیکھا ہے کہ کئی والدین اپنی مصروفیات کے باعث خود اپنے بچوں کو موبائل فون کی لت میں مبتلا کردیتے ہیں کہ بچے ہمیں ڈسٹرب نہ کریں۔ بچے اپنا جی بہلانے کےلیے کارٹونز یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود مواد کا سہارا لیتے ہیں۔ والدین کو بچوں سے اور بچوں کو والدین سے کوئی غرض نہیں، بچے ڈپریشن، چڑچڑا پن، بری عادتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی بنا پر وہ ایک جانور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ جن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر ہم بچوں کی فطری ساخت پر غور کرے تو ایک اور بات ہم پر ظاہر ہوگی کہ بچے اپنے سامنے ہونے والی ہر حرکت و فعل اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ چاہے منفی ہو یا مثبت۔ اس بارے میں ایک مقولہ بھی مشہور ہے کہ:
“بچے اپنے کانوں سے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے سنتے ہیں”.
درج بالا مشاہدوں اور تحقیقات سے یہ بات تو واضح ہے کہ بچے کو اگر زندگی کے کسی دور میں صحیح تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو وہ بچپن کے دور میں ہوتی ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ بچپن میں والدین اور بچے کے درمیان زیادہ وقت گزرنا بچے کی تربیت جیسے اہم فریضہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس میں بچوں کو چھوٹی عمروں میں ہی تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر منبی ہے، والدین اپنی آسانی کےلیے چھوٹی عمر میں ہی سکول بھیج دیتے ہیں جو کہ ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے، وہ وقت سے پہلے بیزار ہوجاتے ہیں، ان کی آزادی ختم کر دی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بات کوئی نہیں سمجھ رہا۔ والدین کی خود ساختہ مصروفیات نے دونوں کو درمیان گزرنے والے وقت میں تخفیف کردی ہیں جس سے بچے کی تربیت جیسے اہم فریضہ میں شدید خلل آ گیا ہے۔ والدین کی کوتاہی اس ضمن میں معاشرے کی بربادی کا سبب بن جاتی ہیں۔

فرد کی تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کرام کی تھی۔ جن کے پیشے کی نسبت انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام سے ہیں مگر افسوس اساتذہ کرام نے اپنی حیثیت کو پہچاننے میں کوتاہی برتی اور اپنے مقدس پیشے کی نا قدری کر کے اس کو عام پیشوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ جن اساتذہ کا کام قوم کے معماروں کی تربیت کا تھا وہ خود اخلاقی پستیوں کے دلدل میں پھنس گئے۔ اگرچہ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ہر شعبے میں اچھے اور برے دونوں قسم کے افراد موجود ہوتے ہیں مگر تاثر ہمیشہ اکثریت کو مدنظر رکھ کر اخذ کیا جاتا ہے۔ اور اکثریت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تاثر ضرور قائم کیا جائے گا کہ اساتذہ کرام کی اکثریت نے اپنے مقدس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کیا جس کے نتیجے میں آنے والی نسل اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو رہی ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International