Today ePaper
Rahbar e Kisan International

معاف کرنااللہ کوبہت پسندہے

Articles , Snippets , / Sunday, June 29th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

معاف کرنا ایک بہترین عمل ہےاور معاف کرنے والے کو اللہ تعالی بہت ہی پسند فرماتے ہیں۔درگزر کر کے معاف کرنا ایک خدائی صفت ہے۔معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ چکی ہےاور بڑھتی عدم برداشت،معاشرے کو بے حد نقصان پہنچا رہی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت بڑے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں،حالانکہ اگربرداشت کا مظاہرہ کر کے معاف کر دیا جائےتو بڑے نقصانات سےبچا جا سکتا ہے۔زمانہ جاہلیت میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت بڑی جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔بعض جنگیں اونٹوں کو پانی پلانے یا گھوڑے دوڑانے پر لڑی گئیں۔جھوٹی انا کی خاطر انسانوں کا خون بہایا جاتا اور اب بھی بہایا جاتا ہے۔زمانہ جاہلیت میں چالیس چالیس سال تک جنگیں لڑی گئیں۔تصور کیا جائے،چالیس سال تک لڑی جانےوالی جنگوں میں کتنے انسان قتل ہو گئے ہوں گے؟کتنی عورتیں بیوہ ہو گئی ہوں گی؟کتنانقصان ہوا ہوگا؟وجہ کیا ہوتی تھی کہ پہلےتم اونٹ کو پانی نہیں پلاو گےیا اس طرح کا کوئی معمولی سا مسئلہ،بڑے جھگڑوں کا سبب بن جاتا تھا۔اب بھی چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے مسائل میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ایک سمجھدار انسان حوصلےاوربرداشت کا مظاہرہ کر کےمعاف کر دیتا ہےاور یہ معافی اس کودنیاوی نقصان سےبچانے کے علاوہ اللہ کا پسندیدہ بھی بنا دیتی ہے۔معاف کرنے والا اللہ کو بھی پسند ہے اور انسانوں میں بھی عزت و تکریم کا حقدار بن جاتا ہے۔
معاف کرنا آسان نہیں،لیکن اگر اللہ کی رضا مد نظر رکھی جائے تو آسانی سے معاف کیا جا سکتا ہے۔اللہ تعالی نےقرآن مجید میں معاف کرنے والوں کا ذکر بہترین انداز میں کیا ہے اور خوشخبریاں بھی سنائی ہیں۔ایک جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے”اگر تم صرف نظر کر لو،درگزر کرو اور معاف کر دو تو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا ہے”(التغابن۔ 14)اللہ تعالی معاف کرنے والوں کو بدلے میں “بخشش”جیسا انعام دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے”پس معاف کر دو اور درگزر کرو،کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے”(النور۔22)اللہ تعالی نے واضح کہہ دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کو اللہ تعالی بھی معاف کرے گا اور بخشش بھی عطا کرے گا۔اللہ تعالی کی ذات بہت رحیم ہےاور اس کی رحمت کی کوئی حد نہیں،اس لیے معاف کر کے اس کی رحمت حاصل کی جائےتو دین و دنیا میں انسان کی کامیابی لازمی ہے۔ایک اور جگہ پراللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں”(وہ)لوگوں کو معاف کر دینے والے(ہوتےہیں)اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے”(آلعمران۔134)بہت سی احادیث میں بھی معافی کا ذکر کیا گیا ہے۔اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پررحم کرنا بہت ہی پسند ہے۔ایک حدیث میں مخلوق پر رحم کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ”تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کر دو،اللہ تمہیں معاف کر دے گا”(مسنداحمد)معاف کرنا بھی،رحم کرناہے۔اگر مخلوق پر رحم کیا جائےاور انسانوں کو معاف کر دیا جائے تو اللہ تعالی بھی رحم کر کے معاف کر دیتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے سامنے ہےاور ہمیشہ انہوں نے معاف کیا۔ایک حدیث کے مطابق،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ”آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی کسی غلام، لونڈی،عورت،بچے یا خادم کو نہیں مارا،سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سےانتقام نہیں لیالیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بےحرمتی کرتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے”(مسلم)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ان دشمنوں کو بھی معاف کر دیا تھا جو ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مسلمانوں کو تکالیف پہنچاتے تھے۔بڑے سے بڑا دشمن بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحمت سے محروم نہ رہا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبانے والی عورت کو بھی معاف کر دیا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معاف نہیں کرتے تھے۔
اگر معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانا ہے تو برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اللہ تعالی نے ظلم سے منع کیا ہےاور یہ اصول بھی لاگو کر دیا ہے کہ ظلم کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔اگر کسی فرد نے کسی پر ظلم کیا ہے یا ذیادتی کی ہے،تو اسی حساب سے بدلہ لیا جا سکتا ہے۔بدلہ لینے کا بھی حکم ہے اور معاف کرنے کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ظلم کا نظام روکنے کے لیے بدلہ لیا جا سکتا ہے تاکہ ظلم کرنے والا ڈر کا شکار رہے کہ اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔اللہ تعالی اس فرد کو زیادہ پسند کرتا ہے جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دے۔ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو معاشرہ تنزلی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اگر معافی کا رجحان بڑھ جائےتو ایک بہترین اور مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔خاندان کےخاندان چھوٹی سی بات کی وجہ سےتباہ ہوجاتےہیں۔کئی قتل ایسی بات پر ہو جاتے ہیں کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ اس بات پر تو تھپڑ بھی نہیں مارا جا سکتا تھا،بجائے اس کے کہ قتل کر دیا جائے۔اگر معافی دے دی جائے تو دشمنی بھی ختم ہو جاتی ہے اور بڑے نقصانات بھی نہیں اٹھانے پڑتے۔دو خاندان اگر کسی مسئلہ پر الجھ جائیں تووہ کئی سالوں تک مسائل میں پھنس جاتے ہیں۔تھانے،کچہری کے علاوہ دشمنیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔دشمنی کا شکار خاندان سرمایہ بھی ضائع کرتے ہیں اور وقت بھی۔جو افرادیاخاندان دشمنی کا شکار ہوتے ہیں،ان کی اولاد معمولی معمولی سہولتوں کے لیے بھی ترستی رہتی ہے۔تعلیم اور دیگر سہولیات بھی حاصل نہیں کر پاتے،یعنی کئی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔معاف کرنا اچھا فعل ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ معاشرے میں بہتری آسکے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International