rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورانِ فرائضِ منصبی رشوت لیتے ہوئے نشان زدہ کرنسی کے ساتھ اہلکار دفتر سے گرفتار، یہ سنسنی خیز خبر متعدد بار ہم سب نے نہایت تجسس سے سنی بھی ہوگی ، دیکھی بھی ہوگی، اور پڑھی بھی ہوگی، لیکن کیا ان گرفتاریوں کے بعد رشوت کی ہمارے معاشرے میں ہمیشہ کے لئے موت واقع ہو گئی ہے؟ جواب ملے گا نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی رشوت ستانی کا یہ درخت پوری آب و تاب سے پھل پھول رہا ہے۔ امتحانی مرکز پر چھاپہ، دورانِ امتحان نقل میں سہولت کاری کرواتے ہوئے امتحانی ہال کا پورا عملہ گرفتار ہو گیا۔ خبر چھپی بھی، ہم سب نے سنی بھی، سب نے پڑھی بھی، لیکن کیا اس کے بعد ہمارے امتحانی مراکز سے نقل کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ جواب پھر سے ہے نہیں، اس کے بعد بھی امتحانی مراکز میں یہ جرم باقاعدہ ایک مافیا کی زیر نگرانی زور و شور سےجاری ہے اور حقدار طلباء کی کھلے عام حق تلفی ہو رہی ہے۔ غرض آپ جس بھی محکمے کے دروازے سے اندر جھانکیں، اندر ہر محکمے میں غبن، ہیرا پھیری، بدعنوانی اور رشوت ستانی کا جمعہ بازار لگا ہوا نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان سب بد عنوانیوں اور بے قاعدگیوں پر چھاپے کی خبریں، جرائم کی روک تھام پر گرفتاریوں کی خبریں، اور طرح طرح کے مقدمات کی خبریں آئے دن سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی بھی نظر آتی رہتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ معاشرے میں جرائم کی روک تھام کی بھرپور کوششوں کے باوجود آخر جرم ویسے ہی پنپتا کیسے چلا جا رہا ہے۔ جرم رک کیوں نہیں رہا۔ جرم کے اس جمعہ بازار کی رونق مانند کیوں نہیں پڑ رہی؟ آخر جرم کے اس طرح پنپنے کے سہولت کار کون ہیں؟ ارسطو کہتا تھا قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں لیکن طاقتور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ اس مکڑی کے جالے کو یہ بدمست ہاتھی روز کیسے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اس کا مشاہدہ ہم سب ہر روز بخوبی کرتے ہوئے ارسطو کے تجربے کی تائید کرتے ہیں، اور جو چند کمزور مکھیاں اس مکڑی جالے کا شکار بنتی بھی ہیں، وہ ایسی ہیں جن کی سزا سے معاشرے میں پھیلتے اس ناسور کے دل میں قانون کا کوئی ڈر نہیں بیٹھتا، کیونکہ وہ جانتا ہے جب تک بدعنوانی اور رشوت ستانی کا گند موجود ہے، مکھیاں اس پر بھنبھناتی بھی رہیں گی، اور بڑی تعداد میں جمع ہونے کے لئے آتی بھی رہیں گی۔ اب جرائم کے خاتمے کے نام پر جتنی بھی مکھیاں مارنی ہیں مارتے رہئیے، جب تک گند کا خاتمہ نہیں کریں گے، گند صاف نہیں کریں گے، نہ تو یہ ناسور ختم ہو گا اور نہ ہی کبھی یہ مکھیاں ختم ہوں گی۔
یوں تو جرائم نہ رکنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ایک وجہ انصاف ہوتا ہوا نظر نہ آنا بھی ہے ۔ ان وائٹ کالر جرائم ( جن کو آپ سرکاری جرائم بھی کہہ سکتے ہیں ) میں ملوث افراد کی گرفتاری کے بعد کب ضمانت ہو جاتی ہے ، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ شاید دلاور فگار کا شعر ان سب نے بھی پڑھ رکھا ہے ‘ رشوت لے کر پھنس گیا ہے۔۔۔ رشوت دے کر چھوٹ جا ‘ ۔ جب اگلی بار سائلین کسی کام سے دفتر کا رخ کرتے ہیں تو انہی صاحب کو نہایت تمکنت سے کرسی پر براجمان دیکھ کر سائلین کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ رشوت کا ریٹ بھی صاحب کے واپس آنے کے بعد بڑھ چکا ہوتا ہے، کیونکہ پکڑے جانے کے بعد پورے معاملے سے پاک صاف دھل کر نکلنے کے لئے خریدے گئے سرف کے پیسے بھی اب سائلین سے ہی وصول کرنے ہوتے ہیں۔ ان کو اتنی بے عزتی کے بعد بھی فخر سے دفتر میں گھومتا دیکھ کر چند دیگر دفتری احباب بھی اپنے میں بنا معجون خوب طاقت محسوس کرتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ جب ارد گرد موجود تمام افراد ان صاحب کو دیکھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں تو ہمیں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے اندھوں کی بستی میں کون دیکھے گا۔ یوں جرم مزید پنپنا اور طاقتور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ جو رشوت خور ہوا کرتے تھے وہ دفاتر میں سب سے چھپ چھپا کر یہ کام کرتے تھے، کہ کسی کو بھنک بھی نہ لگے ورنہ پورے معاشرے میں بدنامی بھی ہوگی اور ماتھے پر ساری زندگی کا داغ بھی لگ جائے گا، مگر زمانہ اب اپنی وہ چال اور چلن بدل چکا ہے۔ اب رشوت تو کھلے عام لی جاتی ہے ، مگر اس سے پرہیز رکھنے والوں کا نہ صرف تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ ان کو بزدل اور بیوقوف ہونے کا ٹائٹل دیا جاتا ہے، بلکہ وہ بیچارے ان سب سے چھپتے بھی پھرتے ہیں کہ یہ سب مل کر ان کا جینا بھی محال کرنے لگے ہیں۔
کسی زمانے میں دفاتر میں رشوت ستانی میں ملوث اہلکاروں کو شرم دلانے کے لئے ہر محکمے کے دروازے پر لگایا گیا چمکتا سائن بورڈ جس پر تحریر ‘رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ‘ اب زمانے کے گرم و سرد سہہ کر خود دھندلانے لگا ہے۔ اب تو چپڑاسی بھی اس پر ٹاکی نہیں لگاتا کہ گرد صاف ہوتے ہی اس میں محکمے کا گرد آلود چہرہ نظر نہ آنے لگ جائے ۔ اس لئے سائن بورڈ کا گرد آلود رہنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
ہر نئی حکومت عنانِ حکومت سنبھالتے ہی اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ جلد ہی اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا، لیکن جب حکومت کلہاڑی سنبھال کر جڑ اکھاڑنے لگتی ہے تو کاٹتے کاٹتے ایسی جڑیں بھی نظر آ جاتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر پھر مٹی پاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہی ممکن رہ جاتا ہے۔ اور جڑ کاٹنے کو چھوڑ کر چاندی کا پانی ڈال کر اس ناسور کو مزید پنپنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
اگر کبھی غلطی سے ان جرائم کے گرد گھیرا تنگ بھی کیا جانے لگتا ہے، تو انصاف کے حصول میں کئی پیچیدہ راستے نظر کے سامنے آ جاتے ہیں، جن پر بنی ہوئیں کئی بھول بھلیاں اس ناسور کی سہولت کار بن جاتی ہیں ، وہاں سے نکلنے کے اچانک کئی خفیہ دروازے نظر آنے لگتے ہیں، جس کو قفل لگانے والے دربان سونے کی کنجیاں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ دروازے کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں بیٹھے دربان بھی نہیں چاہتے کہ کبھی یہ جرائم رک جائیں، کیوں کہ اگر یہ جرائم رک گئے، تو سونے کی تمام چابیاں بیکار ہو جائیں گی۔ ان چور دروازوں پر جالے لگ جائیں گے، اور ان دروازوں کے پیچھے کے نگہبان ان دربانوں کی مدد سے کمائی دولت کے بغیر باہر ممالک میں رکھی رہائش کا خرچہ کیسے برداشت کر پائیں گے۔ ان کی وہ اولادیں باہر کیسے پڑھ پائیں گی، جنہوں نے واپس آ کر ان دروازوں کی چابیاں اگلی نسل کے طور پر سنبھالنی ہیں۔ اس لئے آپ سے معذرت ہے یہ جرائم رک نہیں سکتے۔
Leave a Reply