کالم نگار:
محمد شہزاد بھٹی
آئیے آج ہم آپ کو پاکستان بننے کی کہانی مختصرا سناتے ہیں، اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت آزادی ہے، انسان ہی نہیں بلکہ اس کائنات کی ہر مخلوق آزادی کی اہمیت اور قدر و قیمت کو فطری طور پر جانتی ہے۔ اگر ہم کسی پرندے کو پنجرے میں قید کر دیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ پنجرے میں بند ہوتے ہی وہ بے چین ہوجاتا ہے اور بار بار پھڑپھڑاتا ہے اور آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان، حیوان، جانور حتیٰ کہ چرند پرند سب کی فطرت قید اور غلامی کو ناپسند کرتی ہے اور ہر جاندار اس بات کو جانتا ہے کہ آزادی کے بغیر اس کی زندگی بے معنی ہے۔ شاید اسی لئے ہی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے بے شمار ظلم و ستم سہنے اور کم و بیش سات لاکھ جانوں کی قربانی دینے کے بعد قائداعظم محمّد علی جناح کی قیادت میں27 رمضان المبارک 14 اگست 1947 کو آزاد ریاست پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے پہلے 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ ن کے تین روزہ سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی جو سات سو الفاظ اور چار پیراگراف پر مشتمل تھی یہ تاریخ ساز قرارداد قائداعظم محمّد علی جناح کی قیادت میں منظور کی گئی جسے بعد میں قرارداد لاہور کہا جانے لگا۔ ہندوؤں نے اس کا مذاق اڑایا اور اس کو قرارداد پاکستان کہنا شروع کر دیا جس کا نام بعد میں قرارداد پاکستان ہی رکھ دیا گیا۔ قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا۔ اس قرارداد کی یاد میں ایک مینار تعمیر کیا گیا جسے مینار پاکستان کہتے ہیں، مینار پاکستان ایک قومی عمارت اور یادگار ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940 کو قائداعظم محمّد علی جناح کی زیرصدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی، اس تاریخی مینار کو یادگار پاکستان بھی کہتے ہیں۔ اس جگہ کو اس وقت منٹو پارک کہتے تھے جو سلطنت برطانیہ کا حصہ تھی اس جگہ کو بعد میں اقبال پارک کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اس مینار کی تعمیر کے سلسلہ میں 1960 میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی، اس کمیٹی کی منظور شدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس مینار کا ڈیزائن مشہور ترک ماہر تعمیرات نصرالدین مراد خان نے تیار کیا اور انہوں نے مینار کا بجٹ کم ہونے کے باعث اپنی فیس بھی رضاکارانہ طور پر نہیں لی تھی۔ مینار کی تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 1960 میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968 کو اس مینار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس مینار کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔ اس مینار کا ڈھانچہ 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے، مینار کی بلندی 196 فٹ ہے، مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں اس کے علاوہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے، مینار کا نچلا حصّہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے، اس کی سنگ مرمر کی دیواروں پر قرآن مجید کی آیات، قائداعظم محمّد علی جناح، شاعر مشرق علامہ محمّد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ كنندہ ہے۔ مینار پاکستان کے احاطہ میں قومی ترانے کے خالق حفیظ جلندهری کا مزار بھی ہے۔ مینار پاکستان کے اردگرد خوب صورت سبزہ زار، فوارے، راہداریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔ جون 1984 کو ایل ڈی اے نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ جہاں آج مینار پاکستان موجود ہے اس سابقہ اقبال پارک کو اب گریٹر اقبال پارک کہتے ہیں۔ 23 مارچ کا دن اور مینار پاکستان اہل پاکستان کو اس جذبے کی یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کا باعث بنا۔ 23 مارچ کا دن پاکستانی قوم کے لیے تجدید عہد وفا کا دن ہے کہ ہم قوم پرستی، فرقہ پرستی سے نکل کر اور تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر وطن عزیز پاکستان کی حفاظت، ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اللّه کریم ملک پاکستان اور اس عزم و ہمّت، جراّت و بہادری کے نشان کو مینار پاکستان کو قیامت تک قائم دائم رکھے۔ آمین
Leave a Reply