عامرمُعانؔ
۔
~ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
قبرستان میں قبروں میں خاموشی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہر گلی میں آہ و فغاں کا شور بے اثر ہے۔ ہر بے گناہ کا خون سڑکوں پر پھیلا پڑا ہے ۔ یہ ایک ایسے بے حس معاشرے کا المیہ ہے جہاں دوسرے کی موت پر یہ احساس باقی رہتا ہو کہ میں تو ابھی زندہ ہوں ۔ لیکن یاد رکھئیے یہ صرف احساس ہی ہے کیونکہ آپ کی موت تو بہت پہلے ہو چکی ہے ۔
دریائے فرات کے کنارے ایک کتے کا احساس کرنے والے رہبران امت کا عمل تھا کہ اس کے بھوکا ہونے پر بھی اللہ کی پکڑ ہو گی اور اس کی بھوک کا تدارک کیا جائے ۔ اور ان کو ماننے والوں کا یہ حال کہ انسانوں کے قتل پر بھی ہونٹوں پر چپ کا قفل لگا ہوا ہے ۔ روز صبح کا اخبار کسی نہ کسی بے گناہ کے قتل کی خبر لے کر آتا ہے ، سوشل میڈیا پر وہ خبر اچھالی جاتی ہے، اور پھر وہ خبر شام تک قبرستان میں دبا کر ایسے بھلا دی جاتی ہے جیسے یہ اس ملک کا واقعہ ہی نہ تھا ۔
نہ اہل اقتدار پر کوئی فرق محسوس ہوتا ہے ، نہ اکابرین ملک پر ، نہ اداروں کو کوئی غم ہوتا ہے ، نہ پولیس کے کان پہ جوں رینگتی ہے، نہ عدالتیں کوئی پوچھ گچھ کرتی ہیں ، نہ علماء کو احساس ہوتا ہے ۔ اور عوام کا حال یہ ہے کہ سب اپنی اپنی باری کے انتظار میں چپ چاپ زندہ بدست مردہ دن گزارتے ہیں اور شام کو گھروں میں داخل ہو کر سکون کا سانس لے کر خوش ہو جاتے ہیں کہ کم از کم آج کے دن تک تو میں زندہ رہا ۔ اور جو اس دن قتل ہو گیا اس کے گھر کہرام مچا ہوتا ہے ۔ اور یہ زندہ بدست مردہ لوگ ان کو صرف صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو اللہ کو منظور ۔ اگر تو اللہ کو منظور کہنا ہی اس سب کا حل ہے ، تو اللہ کو قرآن میں واضح احکامات دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ اسلام میں سزاؤں کا تصور کیوں رکھا گیا ؟ اور دریائے فرات کے کنارے ایک کتے تک کا احساس کیوں کیا گیا ؟؟ کیا واقعی اب ہمارے دلوں میں خوف خدا موجود ہے ؟ کیا ہمیں قبر کی یاد آتی ہے ؟ کیا ہمارے اہل اقتدار اور صاحب طاقت لوگوں میں یہ ڈر موجود ہے کہ ایک دن ان سب کو اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ؟؟
ابھی کچھ دن پہلے ایک طالب علم کا بے گناہ خون بھی خشک نہ ہوا تھا کہ ایک اور واقعہ ہو گیا ۔
ایک موٹر سائیکل ڈرائیور سے موبائل چھینتے ہوئے گولی مار دی گئی ۔ یہ ایک خبر نہیں ہے یہ معاشرے کی تصویر ہے کہ یہ پورا معاشرہ مردہ ہے جہاں یکے بعد دیگرے قتل ہو رہے ہیں اور اللہ کے نام لیوا اللہ کے خوف سے آزاد ہیں۔
یہ کون سی نادیدہ مخلوق ہے جو سی سی ٹی وی کیمروں میں تمام وارداتیں کرتی نظر آتی ہے اور پھر بھی گرفت سے آزاد ہے ؟ جس کا شائد ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ نادیدہ مخلوق جو اس ملک کے قوانین سے بے خوف یہ وارداتیں اتنے آرام سے انجام دے رہی ہے وہ اس ملک کے قانون سے اوپر ہے اور اللہ کے خوف سے آزاد ہے ۔ یہ نادیدہ مخلوق آخر کہاں بستی ہے ؟ کہاں سے آتی ہے اور کہاں چھپ جاتی ہے ؟ ہمارے اتنے طاقتور ادارے ان کی پناہ گاہوں کو ڈھونڈنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں ؟ ہمارے سماجی خدمت کے ادارے جو مفت میں تین وقت کھانا کھلاتے ہیں کیا وہ ان کے نادانستہ مددگار تو نہیں بن رہے ؟ کیا ان کے پاس یہ ڈیٹا ہے کہ ان کے پاس سے یہ خوراک لینے والے کون ہیں ؟ کیا ان سے جرائم پیشہ افراد تو فائدہ نہیں اٹھا رہے ؟ کیا ہمارے معاشرے میں رشوت کا زہر تو ان کو پنپے کا موقع نہیں دے رہا ؟ کیا صاحب طاقت لوگوں کی عوام سے دوری کا یہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ؟ عدالتوں اور منبروں سے عملی اقدامات کے بجائے صرف کھوکھلے بیانات اس نادیدہ مخلوق کے لئے کوئی رکاوٹ بننے میں ناکام ہیں ؟کیا روز حشر کے انصاف تک یہاں جنگل راج رہے گا ؟ خدارا عملی اقدام کیجئیے یہاں دریا فرات کے کنارے کتا نہیں سڑکوں پر انسان مر رہے ہیں ۔
~ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
Leave a Reply