عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھو میاں گہری سانس لیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ، ہاتھ میں اخبار پکڑا ہوا تھا ۔ ہم نے پوچھا خیر ہے آج کس بات پر غصہ آیا ہوا ہے ۔ بدھو میاں فورا ناراض ہوتے ہوئے کہنے لگے ، ہم آپ سے چند سوال کیا پوچھ لیتے ہیں ، آپ کو یہ ہمارا غصہ لگتا ہے ، پھر کہنے لگے ایک تو ہم ایسے معاشرے میں کیوں ہیں جہاں سوال کرنا برا سمجھا جاتا ہے ؟؟ گھر میں والدین سوال کرنے سے منع کرتے ہیں ، درسگاہوں میں استاد سوال کرنے سے منع کرتے ہیں ، گھر سے باہر یہ معاشرہ سوال کرنے سے منع کرتا ہے ، بلکہ اس معاشرے میں سوال کرنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے ۔ کہیں پر معاشرہ سوال کرنے والے کو باغی قرار دیتا ہے ، کہیں سوال کرنا موت کے فرشتے کو دعوت دینا بن جاتا ہے ، اور کہیں معاشرے میں گمراہی کا علم بردار ہونے کا تمغہ وصول کرنا پڑتا ہے ۔ ہم نے لمبی ہوں کرتے ہوئے کہا ، بدھو میاں آپ سوال کریں ، ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے ۔ آپ کی بات درست ہے کہ دنیا میں وہی معاشرے ترقی کر رہے ہیں جہاں سوال کی اہمیت کو سمجھ لیا گیا ہے ۔ سوال آپ پر سوچ کے نئے زاویے کھولتا ہے ، سوال معاشرے میں پیدا برائیاں آئینہ بن کر سامنے لاتا ہے ، سوال انسان کی شخصی آزادی کا پہلا زینہ ہے ، سوال آپ کے لئے نئے جوابات کھوجنے اور ترقی کرنے کا زینہ ہے ۔ ہزاروں سال سے انسان کی ترقی کا راز سوال اٹھانے والے دماغ ہی ہیں، وگرنہ انسان ابھی غاروں میں ہی رہتا ، پھر بات سمیٹتے ہوئے ہم نے کہا ، بدھو میاں یہ بات تو بہت لمبی ہے اس کو چھوڑیں اور یہ بتائیں آج کیا سوال لے کر آئے تھے ۔ بدھو میاں کہنے لگے پہلے یہ خبر پڑھیں اور اخبار ہمارے سامنے رکھ دیا ، لکھا ہے کہ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خریداری کرتے وقت حکومت کے طے کردہ اشیاء کے نرخ سے زیادہ قیمت ہرگز تاجروں کو ادا نہ کریں ۔ ہم نے کہا پھر اس میں سے کیا سوال نکال لیا ، اچھا تو کِیا حکومت نے عوام کو آگاہ کر دیا کہ حکومتی نرخ سے زیادہ بالکل ادا نہ کریں ۔ بدھو میاں ہنسنے لگے اور کہا اس لطیفے میں آپ کو کوئی سوال ہی نظر نہیں آتا ؟ حیرت ہے ۔ ہم نے کہا چلیں آپ بتا دیں تاکہ آپ کی حیرت تو کم ہو ۔ بدھو میاں کہنے لگے یہ بتائیے کہ اب کیا عوام جا کر ان تاجروں سے لڑائی کرے گی کہ حکومت کے نرخ پر اشیاء فروخت کرو ؟ اور عوام کے سوال پر تاجر کیا کہیں گے ؟ یہی نا کہ بھئی لینا ہے تو لو ورنہ آگے بڑھو ، اب آگے والا تاجر بھی سوال پر کہے گا اور آگے بڑھو اور یوں آگے بڑھتے بڑھتے عوام اپنے گھر واپس پہنچ جائے گی ، لیکن حکومتی نرخ پر مطلوبہ اشیاء یا تو ملیں گی نہیں یا پھر انتہائی ناقص ملیں گی ، جو آپ خود نہیں خریدو گے کہ حکومتی نرخ تو اعلیٰ معیار والی اشیاء کے ہیں ، پھر یہ ہوگا کہ جگہ جگہ تاجروں کیساتھ عوام کی ہاتھا پائی ہو رہی ہو گی اور عوام نقص امن میں تھانے میں بند ہو گی ، کہ دوسرے کی جگہ پر جا کر ہنگامہ آرائی کرنے کا مقدمہ درج ہو جائے گا کیونکہ دنگا کرنا قانونی طور پر جرم ہی ہے ، پھر عوام ان چھوٹے دکانداروں سے تو لڑ بھی لیں گے ، لیکن یہ بڑے بڑے مگر مچھ جو مالز بنا کر بیٹھے ہیں ، وہاں تو آپ سوال کر بھی نہیں سکتے ، وہاں عوام پھر کیا کریں گے ؟ ۔ ہم نے کہا یہ تو ہے لیکن تاجروں کو کہہ تو سکتے ہیں کہ یہ حکومتی نرخ ہیں ، آپ حکومتی نرخ پر اشیاء فروخت کریں ۔ بدھو میاں ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے اور پھر بولے ، کیا تاجروں کو نرخ کا پتہ نہیں ہے ؟ ، جو عوام جا کر بتائے گی اور عوام کے بتاتے ہی وہ شرافت سے بات مانتے ہوئے نرخ کم کر دیں گے ، بلکہ الٹا وہ عوام سے بحث کریں گے ، کہ اُن کی قیمت خرید ہی زیادہ ہے ہول سیلر نے مہنگی دی ہے ۔ عوام کے پاس کیا اختیار ہے کہ اس کا بل چیک کر سکیں ، اور بل چیک کرنے کے بعد کیا اختیار ہے کہ ہول سیلرز سے سوال کر سکیں کہ مہنگا کیوں بیچا ۔ ہم نے کہا واقعی سب سے کون لڑے گا ،مہا دنگل شروع ہو جائے گا ، پھر اس کا کیا حل ہے ؟ تو بدھو میاں پھر ہنسنے لگے، کہا یہی تو سوال تھا ۔ اب آپ بتائیں نرخ کون مقرر کرتا ہے ؟ ہم نے کہا حکومت ، بدھو میاں نے کہا اس پر عمل کروانے کا کون پابند ہے ، ہم نے کہا حکومت ۔ بدھو میاں بولے کیا حکومتی پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں ؟ ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ پھر سوال ہوا ، وہ با اختیار بھی ہیں کہ حکومتی اتھارٹی ہے ان کے پاس ، اور “ہم چپ رہے ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ ترا ” کے مصداق ہم صرف ہنس دئیے ۔ بدھو میاں نے کہا یوں اخبار میں اشتہار دے کر پیسے خرچ کرنے سے بہتر نہ تھا کہ ان کمیٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر سخت احکامات دئیے جاتے ۔ کسان ، مینوفیکچررز ، ہول سیلرز اور پھر مارکیٹ تک پہنچنے کے تمام نرخ کنٹرول کئے جاتے۔ آپ کے علم میں ہے کہ مڈل مین ہی ناجائز منافع اور رشوت سے اپنے مرضی کے نرخ مقرر کر رہا ہے، کسان کو تو اس کی محنت تک نہیں ملتی ہے۔ اس لئے تمام مراحل میں شفافیت برقرار رکھتے ہوئے مکمل حکومتی اختیارات نافذ کئے جاتے ۔ سب کو پابند کیا جاتا حکومتی نرخ پر اشیاء فروخت کریں ، پھر عوام کے لئے اشتہار ہوتا کہ جائیے اور اس نرخ پر خریداری کیجئیے، بِنا اگر ، مگر اور زبردستی کے ابہام کے ۔ دنیا میں حکومتی نرخ کو حکومت ہی کنٹرول کرتی ہے اور یہ بات یقینی بناتی ہے کہ عوام کو یہ یقین ہو کہ مینوفیکچررز سے دکاندار تک کوئی بھی حکومتی نرخ سے زیادہ وصول کرنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔ ہم خاموش رہے کہ اب یہاں سارا نظام ہی ایسے چل رہا ہے کہ عوام حیران ہیں کہ داد رسی کے لئے کون سا در کھٹکھٹایا جائے ۔سو اب حکومت سے التجا ہے کہ خدا کے لئے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائیں ، اپنے اختیارات سے عوام کی سہولیات کی فراہمی حکومتی نرخ نامہ پر یقینی بنائیں ، عوام سے نرخ نامہ کا کھلواڑ نہ کریں، وگرنہ ایسے لطیفوں پر ہنسی کے علاؤہ عوام رو بھی سکتی ہے۔
Leave a Reply