گلشن اختر میو
ننکانہ صاحب
آج بھی ہمارے والدین وہی پرانی روایت وہی سوچ وہی باتیں وہی گردنوح کی فکر میں مبتلا ہیں اگر آپ نے اپنی بیٹی کو اچھا بھلا جہیز دیا, اچھا گھربار ڈھونڈ کر میسر کیا تو سنو یہ اپکآ فرض تھا اور یہ ہر بہین, بیٹی کا حق ہے لیکن ضروری تو نہیں آپ کے بیٹے کے لئے بھی یہ سب میسر ہو اور ہمارے معاشرے میں بہت سے والدین بچوں کی شادیوں میں اس وجہ سے تاخیر کا باعث بن رہے ہیں کہ بیٹے والے اچھی پڑھی لکھی خاندانی اور جہیز میں کار وغیرہ چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب بیٹی والے بھی ڈیمانڈ کی بھر مار کئے ہوئے ہیں .بیٹی والا اس وجہ سے رشتہ کرنے سے انکار کر دیتا ہے جی لڑکا نوکری نہیں کرتا. گھر بار الگ سے نہیں ہے. ماں باپ ساتھ ہیں. فرض کریں اگر 25 سالہ لڑکا گھر بار بنائے اور کاروبار کو فروغ دے پھر شادی کرے تو وہ تب تک بوڑھا ہو جائے گا. اسی سوچ اور اسی بے بنیاد رسم و رواج کی وجہ سے ہمارے بچے ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں اور زنا عام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے. ہمارے میوات میں الحمدللہ نوجوان میں شعور اجاگر ہو رہا ہے لیکن اب بھی ہم والدین کی اس بے بنیاد سوچ کا شکار ہوئے پڑے ہیں. ہمارے ہاں اگر حق بات کہی جائے تو اسے بدتمیزی کے زمرے میں لیا جاتا ہے لڑکا ہو یا لڑکی. لڑکی اگر پڑھ لکھ لے گورنمنٹ جوب کرنے لگے اور اسے کوئی سفید پوش, انگھوٹھا چھاپ پسند آجائے تو مار پیٹ کے زبردستی کسی اور کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے اسے بار بار اسکی برتری کا احساس دلایا جاتا ہے. ہمارے والدین پگڑیوں کی خاطر زندگیوں کا فیصلہ کر دیتے ہیں. اسے قسم وعدے لیکر, جذباتی کر کے مجبور کر دیا جاتا ہے وہ سر جھکانے پر مجبور ہو جاتے ہیں. اس بنا پر رشتے بن تو جاتے ہیں لیکن ان میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے. چھوٹی سی زندگی کو ہمارے اپنے مان و بھرم اور اونچی ناک رکھنے کے لئے برباد کر دیتے ہیں.
جبکہ میرے خیال سے بہترین ہمسفر زیست کے لئے عقل و شعور کا ہونا اور عزت کرنے اور کرانے والا اہم بات ہے اور پھر ہمسفر زیست کے لئے دونوں کی سوچ میں یکسانیت کا ہونا لازماً ہے. اور یہ ہی اگر دوپڑھے لکھے میاں بیوی میں نا ہو تو عمر بھر کے لئے گاڑی کا چلنا نا ممکن ہے اور بے چینی کے سوا کچھ بھی نہیں. اگر کسی پڑھے لکھے شخص کی کسی فقط چند کلاس پڑھے ہوئے شخص سے سوچ ملتی ہے وہ اسے ہمسفر بنانا چاہتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے اور برائی کیا ہے. ہمارے دین اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے لڑکے اور لڑکی کی پسند پوچھی جائے اگر کوئی پسند ہے تو نکاح کر دیں جب ہمارا دین اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے تو معاشرہ کیوں نہیں. والدین کیوں نہیں. اگر آپ چاہتے ہیں 45% ڈپریشن اور اموات کی شرح کم ہو زنا کم ہو تو خدارا بچوں کی رضامندی سے نکاح کر دیں رزق دینا والا اللہ کی ذات ہے عزت اور زلت رب آسماں کے ہاتھ ہے آپ اپنی انا اور وقار کے لئے دو لوگوں کی زندگی سے کھیل کر معاشرے میں عدم برداشت مت پیدا کریں.نکاح تو ایمان کو مکمل کرتا ہے.
Leave a Reply