عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو جی گھڑی کی سوئی نے جیسے ہی بارہ کے ہندسے کو چھوا ۔ فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی ، اور گولیوں کی آواز سنتے ہی بدھو میاں بستر سے یوں اچھل کر باہر نکلے جیسے ایک آدھ گولی اِن کو بھی چھو کر گزری ہے ۔ ہم نے ہنستے ہوئے پوچھا ، کیا ہوا بدھو میاں یہ تو صرف نئے سال کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی جا رہی ہے ۔ بدھو میاں نے ہم کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ، نئے سال کی خوشی میں تو آتش بازی ہوتی ہے ، یہ آتشیں اسلحہ چلانے کی اجازت کون دیتا ہے ؟ الٹا آتشیں اسلحہ چلانے پر تو ہر سال حکومتِ وقت پابندی کا اعلان کرتی ہے ۔ ہم نے جواباً کہا آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں ، اس اعلان کو تو ہر سال یوں ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے جس طرح طاقتور لوگ دیگر قوانین کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں ۔ بدھو میاں نے گہری سانس لی اور کہنے لگے ، لازمی طور پر یہ بہت نقصان دہ فعل ہے ، اسی لئے تو اس پر پابندی لگائی جاتی ہے ۔ آپ خود دیکھیں کہ ہر سال اخبار میں اندھی گولی سے ہلاکت کی کتنی خبریں موجود ہوتی ہیں ۔ کیا اِن لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ مرنے والے ہلاک نہیں ہوتے ، بلکہ وہ تو قتل ہوتے ہیں ۔ بیشک قانون نافذ کرنے والے ادارے اِن افراد کو نہ پکڑ سکیں جو اس حادثے کا موجب بنتے ہیں ، مگر بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ روز قیامت ہمیں ہر عمل کا حساب دینا ہوگا ، تو کیا وہ قتل جیسے فعل سے اُس دن بچ نکلنے کی سوچ رکھتے ہیں ۔ وہ دن جب چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کٹہرے میں لایا جائے گا اور مظلوم کو انصاف پہنچایا جائے گا۔
ہم نے کہا سب سے پہلے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اتنا اسلحہ گھروں میں موجود ہی کیوں ہے؟ اور کیا یہ سارا اسلحہ حکومتِ پاکستان کا اجازت شدہ ہے یا اس میں زیادہ تر غیر قانونی اسلحہ ہے ۔ جب یہ اسلحہ اتنی بڑی تعداد میں گھروں میں موجود ہو گا تو لازماً اس کو درست حالت میں رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً چلانے کی ضرورت تو پیش آئے گی ، اور اس کے لئے سب سے آسان یہی مواقع ہوتے ہیں جس میں ان کو چلا کر آرام سے درست بھی کر لیا جاتا ہے اور پکڑے جانے کا خوف بھی نہیں رہتا ۔
بدھو میاں ابھی تک گہری فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، کہنے لگے کہ ماحول دوست تنظیمیں جو ماحول کی بہتری کےلئے کام کرتی ہیں آخر وہ کیوں اس پر آواز نہیں اٹھاتیں ؟ اور اگر اٹھاتی بھی ہیں تو وہ ایک توانا آواز کیوں نہیں بنتی، تاکہ حکومت مجبوراً اس کی روک تھام میں سختی سے کام لے ، پھر کہنے لگے اول تو یہ آتش بازی کرنا بھی غلط ہے ، کیونکہ بہت سے گھروں میں بزرگ اور مریض موجود ہوتے ہیں ، جنکی نہ صرف نیند خراب ہو جاتی ہے بلکہ ان کی طبعیت بھی خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ، جس سے بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ اُس پر سونے پہ سہاگہ یہ آتشیں اسلحہ جو آواز سے بھی خطرناک ہے اور واپسی آتی اندھی گولی اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، واپسی پر نجانے وہ کیا گل کھلائے کسی کو نہیں پتہ ، کیونکہ اِس اندھی گولی کے شر سے نہ تو انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی اپنے گھونسلوں میں رات گزارتے پرندے ، پھر یہ تو اسلامی احکامات اور تعلیمات کے بھی خلاف ہے ، جس میں تاکید کی گئی ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ آپ کی زبان اور ہاتھ کے شر سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ، مگر یہاں تو کھلم کھلا شر بھی ہے شرارت بھی، آفت بھی اور ان دیکھی افتاد بھی ، اُن تمام گھروں کے لئے جہاں یہ اندھی گولی گر کر تباہی مچائے گی ۔ ایک ایسے آغاز پر جو آپ کی عمر مزید کم ہونے کا اعلان ہے ، یوں لاپرواہی دکھانا اور جشن منانا کیا ہمارے اسلاف کا سکھایا ہوا سبق ہے؟
حکومتِ وقت ہمیشہ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعوے تو بہت کرتی ہے ، دفعہ 144 کا نفاذ بھی کرتی ہے ، ناجائز اسلحہ پر گرفتاری کرنے کا ڈراوا بھی دیا جاتا ہے ، اور ہر سال یوں دکھایا جاتا ہے کہ اس سال سب کچھ امن سے ہو گا اور کوئی قانون ہاتھ میں نہیں لے سکے گا ، لیکن ، جیسے ہی بارہ بجتے ہیں ، تمام ملک کو یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار نام کی کوئی شے جیسے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی ۔ تادیر قانون کے رکھوالے ساکت و جامد ہو جاتے ہیں ۔ جب سب اپنے اپنے اسلحہ کا جوش دکھا کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ، تب یہ رکھوالے خواب خرگوش سے جاگتے ہیں ، اور پھر حکومت بھی ان اعلانات کو دراز میں چھپا کر رکھ لیتی ہے کہ اگلے سال پھر جاری کئے جائیں گے تاکہ ان کو اسی طرح دوبارہ ہوا میں اڑایا جا سکے ۔
بدھو میاں کی بات درست ہے ، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ اندھی گولیاں ہر سال ان معصوم لوگوں کی زندگی چھین لیتی ہیں جو بیچارے دیگر تمام لوگوں کی طرح نئے سال میں امید کا چراغ روشن کرنا چاہتے تھے ۔ خدارا خوشیاں منائیں مگر کسی کے گھر میں ماتم کا پیغام پہنچا کر ہرگز نہیں
Leave a Reply