اظہر ہاشمی
ہر زمانے میں حق پر چلنے والوں کے لیے کربلا بپا کی گئی۔۔۔ مگر اسلام زندہ ہوا ہر کربلا کے بعد۔۔۔ میں کچھ دیر کے لیے تمہارے پاس ہوں۔۔ مگر میں ہمیشہ تمہارے بیچ میں موجود رہوں گا۔۔۔ میں مایوس نہیں ہوا کبھی بھی۔۔۔ تم بھی نہ ہونا۔۔ ہجوم میں پن ڈراپ سیلینس ہو چکا تھا قائد خاموش ہوئے تو ایک لڑکی اُٹھی، بابا۔،۔۔ مم سس سس سوری سر۔۔۔ مجھے آپ کو بابا کہنا اچھا لگا آپ میرے ابو جیسے ہیں بیٹا میں اس ساری قوم کا باپ ہوں۔۔۔ اور تم سب میرے بیٹے بیٹیاں ہو۔۔۔ بابا۔۔۔ آپ کو پاکستان میں اب ایسا کیا لگا ہے کہ آپ اب بھی امید سے ہو؟ قائد مسکرائے۔۔۔ اور اسکی طرف اشارہ کیا۔۔۔ ہاں مجھے امید نہیں یقین ہے کہ پاکستان میں تم ہو۔۔ تم سب ہو۔۔۔ بس تم میں جو چیز کی کمی ہو گئی ہے وہ ہے اتحاد، یقین محکم اور تنظیم کی۔۔۔ مگر سر ہم عوام تو یہ سب مانتے ہیں مگر ہمارے حکمران۔۔۔ ایک لڑکے نے کھڑے ہو کر کہا حکمران بھی آپ نے بنائے ہیں۔۔ یاد رکھیے قوم کا رہبر بھی آپ میں سے ہی ہوتا ہے۔۔۔ آپ ہی اسے آگے لاتے ہیں۔۔۔ آپ اچھے اور ایماندار لوگوں کو اپنا نمائندہ بنائیں۔۔۔ نہ کہ صرف دولت اور طاقت والے کو حاکم بنا دیں تو آپ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، ایک اور نوجوان نے پوچھا وہ سب آپ جیسے ہیں، قائد نے مختصر جواب دیا، آپ کو اب خود مقابلہ کرنا ہو گا۔۔۔ قربانی دینا ہو گی۔۔۔ یاد رکھو یہ آزادی ایسے نہیں ملی۔۔۔ لاکھوں افراد کی قربانی ہے۔۔ آپ ایک دوسرے کے۔۔۔۔ ایک دم سے پھر گولیوں کی ترتراہٹ شروع ہوئی گولیاں قائد کے پاس سے گذریں۔۔۔ مگر اب سب کھڑے ہو گئے اور دیکھا تو دھشت گردوں نے اب چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔۔۔ کالے کپڑوں میں ملبوس دھشت گردوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار تھے۔۔۔ مگر اس بار انہیں نوجوانوں نے انہیں دبوچ لیا تھا۔۔۔ لوگ دیوار بن کہ قائد اور مادر ملت کے اردگرد گھیرا ڈال کہ کھڑے ہو گئے۔۔۔ فائرنگ رک گء تھی۔۔۔ فوجیوں نے ایک ایک دھشت گرد کو دبوچ لیا تھا۔۔۔مگر اس وقت تک کتنے ہی لوگ گولیوں کی زد میں آ چکے تھے۔۔۔ ایمبولینسیں چیخ رہی تھیں۔۔ قائد ایک نوجوان جو گولیوں سے چھلنی ہو چکا تھا۔۔۔ اس کے سامنے بیٹھ چکے تھے انکا ہاتھ جوان کے ہاتھ میں تھا۔۔۔۔۔ جوان کی اکھڑی ہوئی سانسیں بتا رہیں تھیں کہ وہ چند لمحوں کا مہمان ہے اس نے بمشکل بولنے کی کوشش کی بابا۔۔۔۔ مجھے بتائیے کہ میں کیوں مارا گیا۔۔۔ میرا قصور کیا تھا۔۔۔؟؟ قائد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔ اب نہیں ہو گا ایسا۔۔۔ ایک نیا سویرا نکلے گا۔۔۔ مم مم مگر وہ سویرا میں کیوں نہیں دیکھ سکوں گا۔۔۔۔۔؟ قائد نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ میرے بچے۔۔۔۔ یہ یقین رکھو کہ تم چراغ آخر شب ہو۔۔۔ تمہارے بعد اندھیرا نہیں روشنی ہے۔۔۔ تم نے روشنی کو ختم نہیں ہونے دیا۔۔۔ نوجوان نے قائد کے گال سے آنسو پہنچتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم ہم ہماری روشنی آپ ہیں۔۔۔ ہم ہی بھٹک گئے تھے۔۔ نوجوان نے ایک ہجکی لی اسکے منہ سے خون آنے لگا۔۔۔ اللہ ہمیں معاف کرے۔۔۔ ہم بھٹک گئے تھے۔۔۔۔اور پھر ایک جھٹکا لگا اور اسکی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔۔۔ یہ سب کچھ ایک چینل براہ راست دیکھا رہا تھا۔۔۔۔ ملک بھر کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے قائد نے گھڑی دیکھی جس میں بیس منٹ باقی تھے۔۔۔۔ قائد نے نوجوان کو آرام سے زمین پر رکھا۔۔۔ اور کھڑے ہوئے۔۔۔۔ آہ ہو بکا جاری تھی۔۔۔ فاطمہ جناح بھی زخمیوں کے ساتھ تھیں۔۔۔ سرکاری گاڑیاں اب قائد کے پاس پہنچ چکی تھیں۔۔۔ جن میں انکے ساتھی موجود تھے، گھڑی کی سوئیاں اُلٹی چل رہی تھیں جس پر اب بہت تھوڑا وقت تھا۔۔۔ قائد نے ایک نظر ہجوم کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلایا، فضا قائداعظم زندہ بادہ، پاکستان زندہ باد۔۔ پائیدہ باد کے نعروں گونجنے لگی، فاطمہ جناح نے بھی ہاتھ ہلائے۔۔۔ اور گاڑی میں بیٹھ گئیں، گاڑیاں تیزی سے ائرپورٹ کی طرف بڑھنے لگی، سڑکوں کے ارد گرد لوگ ہی لوگ تھے جنہوں نے بینر اور پاکستان کے جھنڈے اُٹھا رکھے تھے قائد اعظم زندہ باد پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے قائد کو رخصت کرنے کے لیے ملک کی اعلٰی شخصیات موجود تھیں۔۔۔ قائد سب کے ساتھ ہاتھ ملاتے رہے۔۔۔۔ دو بچوں نے قائد اور فاطمہ جناح کو گلدستے پیش کیے، قائد وزیر اعظم صدر اور چیف سے ہاتھ ملا رہے تھے چیف نے انہیں سلیوٹ کیا۔۔۔ اور ساتھ ہی کہا۔۔۔ کہ میری زندگی کا یہ سب سے یادگار سلوٹ ہے۔۔۔ قائد کے جہاز کی چند سیڑھیاں تھیں۔۔ انجن اسٹارٹ ہو رہا تھا۔۔قائد نے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک بار مڑ کہ دیکھا انکی اآنکھوں میں آنسو جھلما رہے تھے۔۔۔ انکے منہ سے نکلا۔۔ خدایا میرے پاکستان کی حفاظت کرنا، اس میں رہنے والوں کی حفاظت کرنا، اسے دنیا میں وہ مقام دینا جس کے لیے یہ بنا تھا۔۔۔اور پھر قائد طیارے میں داخل ہو گئے جہاز کے انجن اسٹارٹ ہو چکے تھے اسکے پنکھے تیزی سے گھوم رہے تھے۔۔۔۔ تین منٹ باقی رہ گئے تھے۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جہاز فضا میں بلند ہوا ابھی جہاز نے ٹیک آف کیا ہی تھا کہ ایک بڑا سا چمکتا ہوا دائرہ نمودار ہوا اور جہاز اس دائرہ میں داخل ہو کر گُم ہو گیا۔۔۔ اور دائرہ ایک چمک کے ساتھ غائب ہو گیا، اسکے ساتھ ہی پھول آسمان سے برسنے لگے یہ ان گلدستوں کے پھول تھے جو قائد اور محترمہ فاطمہ جناح کو دیے گئے تھے وزیر اعظم نے سر اُٹھا کہ دیکھا۔۔۔ اور پھر آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔ جیسے کہ رہے ہوں کہ شکر ہے۔۔۔ یہ چلے گئے، یہ رہ جاتے تو ہمارا کیا ہوتا؟ دوسری طرف ائیرپورٹ کے باہر ہجوم چھٹنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔ ٹی وی چینل تبصرے کر رہے تھے۔۔۔ سب شکر کر رہے تھے کہ کم سے کم ایک دو ہفتے کے لیے ٹاک شو کا موضوع مل چکا تھا۔۔۔۔ دوسری طرف۔۔۔۔ بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔۔۔۔قائد کے جلوس میں شہید ہونے والوں کی تعداد پچاس ہو چکی تھی۔۔۔۔ قائد کی واپسی۔۔۔ واپس ہو چکی تھی۔ عوام بھی نعرہ بازی کر کہ گھر جا چکے تھے۔۔۔ اور قوم ایک بار پھر تھک ہار کر سو چکی تھی۔
((آخری حصہ)
Leave a Reply