Today ePaper
Rahbar e Kisan International

وطن بھی ہو چمن جیسا

Articles , Snippets , / Friday, December 19th, 2025

rki.news

احساس
ناز پروین

ذرا سوچیے—اگر آپ کا کوئی عزیز اس دنیا سے رخصت ہو جائے۔ صدمہ اپنی جگہ، مگر اسی کرب کے عالم میں آپ کو کفن دفن اور آخری رسومات کے انتظام کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ اب اس دکھ پر یہ خبر ملے کہ آپ کو اپنے پیارے کو مذہبی عقائد اور شعائر کے مطابق رخصت کرنے کی اجازت ہی نہیں۔ آپ اسے اپنے دین اور روایت کے مطابق سپردِ خاک یا آخری رسومات ادا نہیں کر سکتے۔ ایسے میں آپ پر کیا گزرے گی؟

اس احساس کی شدت مجھے پشاور میں انسانی حقوق کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کے دوران محسوس ہوئی، جہاں مختلف اقلیتی برادریوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ مجھے بھی اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا۔ میں نے گفتگو کے دوران اپنے والد کا حوالہ دیا، جو قیامِ پاکستان سے قبل اٹک میں رہائش پذیر تھے۔ وہ بڑے شوق سے اس دور کے قصے سنایا کرتے تھے—ایسا دور جہاں ایک ہی گاؤں میں ہندو، سکھ، مسلمان اور عیسائی دیوار سے دیوار جڑے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے، تہوار مل کر مناتے، نہ نفرت تھی نہ تقسیم۔

پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں بلند ہوتی چلی گئیں۔ دل تعصب، بغض اور عدم برداشت سے بھر گئے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو ہی جلانے لگے ۔ ہم مسلمان خود فرقہ در فرقہ بٹتے چلے گئے—ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز ادا کرنے کو تیار نہیں۔میرے والد ہر سال بیساکھی کے موقع پر ہمیں گوردوارہ پنجہ صاحب لے جایا کرتے تھے۔ میں نے خود اپنے بچوں کے ساتھ عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کی، اور اٹلی کے سفر کے دوران انہیں ویٹیکن چرچ کی سیر بھی کروائی۔ بھارت کے سفر میں گوردواروں اور مندروں میں بھی گئے۔ میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سرگرم رکن ہوں اور مختلف مذاہب و ثقافتوں کے احترام کو بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری سمجھتی ہوں۔
اسی کانفرنس کے دوران ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے بتایا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک خیبر پختونخوا، خصوصاً پشاور میں، ان کے پاس آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے شمشان گھاٹ موجود نہیں۔ یہ سن کر دل شدید دکھ اور کرب سے بھر گیا۔ ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے، اور اس سے بڑھ کر ایک انسان ہونے کے ناطے، یہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کر سکیں۔آخری رسومات محض ایک رسم نہیں ہوتیں بلکہ ان کے گہرے نفسیاتی، سماجی، اخلاقی اور روحانی پہلو ہوتے ہیں۔ یہ لواحقین کو غم کے اظہار، حقیقت کو قبول کرنے اور صدمے سے آہستہ آہستہ نکلنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ مرنے والے کے وقار، عزت اور قدر کی علامت ہوتی ہیں—جو ہر تہذیب کی بنیادی انسانی قدر ہے۔ مختلف مذاہب میں دعاؤں، عبادات اور خیرات کے ذریعے مرنے والے کے لیے بھلائی کی امید رکھی جاتی ہے، جس سے اہلِ خانہ کو قلبی سکون ملتا ہے۔ ان مواقع پر برادری کا اکٹھا ہونا لواحقین کے لیے اخلاقی سہارا بنتا ہے۔

شمشان گھاٹ جنازہ گاہ کی طرز کی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں ہندو اور سکھ برادری اپنے پیاروں کا سسکار (جلانے کا عمل) کرتی ہے۔ اس کے لیے مخصوص جگہ، لکڑی کے ذخیرے کا کمرہ اور دیگر انتظامات ہوتے ہیں۔ ایک لاش کے سسکار کے لیے تقریباً ایک من لکڑی درکار ہوتی ہے۔

آج پشاور میں ہندو اور سکھ برادری کے افراد اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر اٹک کے شمشان گھاٹ جانے پر مجبور ہیں، جس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔ اٹک میں قائم شمشان گھاٹ بھی سرکاری نہیں بلکہ سکھ برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کیا ہے اور وہی اس کے تمام انتظامات سنبھال رہی ہے۔
اقلیتی ارکان نے بتایا کہ 1947 سے قبل پشاور میں تقریباً 200 شمشان گھاٹ موجود تھے، مگر بعد ازاں وہ یا تو حکومتی تحویل میں چلے گئے یا عام شہریوں کے قبضے میں آ گئے۔ ایک دو مرتبہ نجی طور پر زمین خریدنے کی کوشش بھی کی گئی، مگر جیسے ہی زمین مالکان کو اس مقصد کا علم ہوا، انہوں نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب حکومت بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت سرکاری قیمت پر زمین خریدنا چاہتی ہے جو مارکیٹ قمیت سے کم ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص سرکاری قیمت پر زمین دینے کو تیار نہیں ہوتا۔حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی زمین پر سیکشن فور نافذ کر کے وہ زمین خرید لے لیکن شمشان گھاٹ کے لیے زمین  خریدنے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

یہ ہمارے اقلیتی بھائی بہن پاکستان کے اتنے ہی شہری ہیں جتنے ہم۔ آئینِ پاکستان انہیں وہی انسانی حقوق دیتا ہے جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ 11 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں—اپنی مساجد، مندروں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔ ان کا خواب ایک ایسی ریاست تھا جہاں تمام شہری بلا امتیاز آزاد اور مساوی زندگی گزار سکیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج اپنے آئین اور قائد کے وژن کے مطابق اپنے شہریوں کو یہ حقوق فراہم کر پا رہے ہیں؟ جہاں اقلیتوں کے لیے روزمرہ زندگی مشکل ہے، وہاں ان کے لیے آخری رسومات کی ادائیگی بھی ایک کٹھن امتحان بنا دی گئی ہے۔

آج لاکھوں پاکستانی بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر مسلم ممالک کا رخ کر رہے ہیں، جہاں انہیں مکمل انسانی حقوق حاصل ہیں، حتیٰ کہ اپنی آخری رسومات کی ادائیگی کی آزادی بھی۔ ایسے میں بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تاکہ ہماری نئی نسل برداشت، احترام اور بقائے باہمی کے اصولوں کے ساتھ دنیا میں اپنا مقام بنا سکے۔

آئیے دل کھولیں، نفرت اور تعصب کی دیواریں گرا دیں۔ قائداعظم کے یومِ پیدائش کے موقع پر ان کے فرمان پر حقیقی معنوں میں عمل کرتے ہوئے مساوات اور بھائی چارے پر مبنی معاشرہ تشکیل دیں۔ پاکستان مختلف قومیتوں اور مذاہب پر مشتمل ایک رنگا رنگ گلدستہ ہے، اور یہی رنگ اس کی اصل خوبصورتی ہیں۔

آخر میں مینا آفریدی کے خوبصورت اشعار کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتی ہوں:

چلو اب ساری نفرت کو
جلن کو اور عداوت کو
مٹانے کی قسم کھائیں
دلوں میں پریم دیپک پھر
جلانے کی قسم کھائیں

محبت اور اخوت کے
شرافت کے صداقت کے
سبق سب کو سکھائیں ہم
گلے سب کو لگائیں ہم

سبھی دھرموں کے لوگوں کو
سکھائیں کیا ہے یکجہتی
ہماری اب یہ کوشش ہو
ہر انسان ہو سمن جیسا

ہماری اب یہ کوشش ہو
وطن بھی ہو چمن جیسا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International