Today ePaper
Rahbar e Kisan International

(ون یونٹ سے پہلے کا خیر پور).(سنی شیعہ بھائی بھائی) (ٹھیری کا سانحہ، شیعہ ماتم گزاروں کا قتل). (ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب پھر کیوں۔۔) ( نہ تو کافر نہ میں کافر)(کاش علما۔۔۔۔)

Articles , Snippets , / Sunday, April 27th, 2025

rki.news

میری آپ بیتی کا یہ ورق خون آلود ہے۔ اگر تحریر نہ کرتا تو بد دینانتی کا مرتکب ہوتا۔

میرا شہر جہاں میں نے ہوش سنبھالا، خیرپور میرس امن کا گہوارہ تھا۔ ون یونٹ سے پہلے ریاست خیرپور کے نواب جارج علی مراد تھے۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ریاست کی آبادی شیعہ سنی بھائی بھائی ۔۔ایک دوسرے کے عقائد کا احترام، محرم کے جلوس میں سب مل کر سبیلیں لگاتے۔ مقامی ہندو بھی ان کے ساتھ شربت، ابلے ہوئے چنے ماتم گزاروں میں تقسیم کرتے۔ شیعہ سنی کے علاوہ کچھ لوگ اپنے آپ کو مولائی بھی کہتے تھے۔ ون یونٹ کے بعد بھی بھائی چارے کی یہ فضا بہت عرصے تک برقرار رہی۔
سن ساٹھ کی دہائی میں خیرپور سے چند میل دور ایک قصبہ ٹھیری میں ایک اندوہناک واقعہ نے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔
ٹھیری کا قصبہ ویسے تو کھجور کی اعلیٰ قسم کے حوالے سے ملک اور ملک سے باہر مشہور ہے۔

3 جون 1963 کو محلے علی مراد (نیا گوٹھ) میں دس محرم کا جلوس امام بارگاہ سےابھی نکلا ہی تھا کہ پندرہ بیس افراد پر مشتمل ایک ماتمی گروہ دوڑتا ہوا جلوس کے پاس پہنچا۔ کسی کسی کے ہاتھ میں ڈنڈے تھے۔ ان کی زبانی پتہ چلا کہ ٹھیری میں ایک سید سندھی نژاد دس محرم کو اپنا عزاء خانہ سجاتا تھا ۔ اسے قتل کردیا اور عزاخانے کو آگ لگادی گئی۔ اس گروہ سے قبل یہ خبر سنتے ہی خیرپور کے محلے لقمان سے بڑی تعداد میں جلوس کے شرکاء علم تعزیہ روڈ پر رکھ کر ٹھیری روانہ ہوچکے تھے۔ نئے گوٹھ کے لوگ بھی اس خبر پر بپھر گئے۔ جلوس وہیں رک گیا۔ تعزیے، علم سڑک پر رکھ دیے گئے اور یہ لوگ بھی آنے والے گروہ کے ساتھ ٹھیری کی طرف دوڑ گئے۔ میں نے اسوقت متعدد بزرگوں کو دیکھا وہ لوگوں کو روک رہے تھے۔ کئی ایک نے تو اپنی پگڑیاں اور ٹوپیاں ہجوم کے قدموں میں رکھ دیں لیکن لوگ نہیں مانے۔
ابعد میں جانے والے اس گروہ کو پولیس نے ٹھیری پہنچنے سے پہلے ہی نہر کے پل پر روک لیا۔
دوسرے دن ٹھیری سے پولیس اور دوسری ایجنسیوں نے 100 سے زیادہ قتل کی گئی لاشیں برامد کی۔ زیادہ تر کے گلے کٹے اور جلی ہوئی تھیں۔ سب شیعہ تھے۔ یہ پہلے گروہ کے نہتے لوگ تھے جو لقمان سے خبر سنتے ہی ٹھیری پہنچے تھے۔ انہیں اندازہ بھی نہ ہوگا کہ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی، لقمان میں گنجِ شہیداں نامی قبرستان میں تدفین کی گئی۔ خاص شہر خیرپور کے مقامی و غیرمقامی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ایک لاش میرے کلاس فیلو سید ظفر عباس حالیہ مقیم کراچی کے قریبی عزیز کی تھی۔ میں نے خود دیکھا۔ مرحوم کا گلا کٹا ہوا اور کھلے ہوئے منہ کو جلایا ہوا تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی مسلمانوں کے دونوں فرقوں کے درمیان جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سانحہ بہت بڑا تھا جس میں بڑی تعداد میں شیعوں کا قتلِ عام ہوا۔ پہلے شیعہ سنیوں کے درمیان رشتہ داریاں ہوا کرتی تھیں۔ شادی بیاہ بھی آپس میں ہوتے تھے اب خال خال۔
علما چاہیں تو یہ نفرتیں اور عدم برداشت کی فضا ختم ہوسکتی ہے۔ ایک اللہ، رسول، کتابِ الہی پر سب متفق ہیں پھر ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ آخر حج کے موقع پر بھی ایک جگہ، ایک پیش امام کے پیچھے، ہاتھ باندھے اور کھولے نمازی نظر آتے ہیں۔ واپس اپنے ملک آکر یہ روداری کیوں نظر نہیں آتی۔۔کاش ہمارے علما ان اختلافات کو ختم کروانے میں سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے گریز کریں۔۔کاش ۔۔کاش۔۔:

[براہِ کرم متنازعہ کمنٹس سے گریز کیجیے]

نظم
“نہ تو کافر ، نہ میں کافر”

یقیں اُس پر
یقیں اُس کے رسولوں پر !
رسولوں پر ہوئیں
نازل کتابوں پر
کتابوں میں دیے ہر لفظ پر
اُن کی صداقت پر !

حیات عارضی پر
اور دوبارہ زندہ ہونے پر
فرشتوں کے لکھے اعمال پر
ان کی دیانت پر
امانت پر!

گنہ گاروں کی پرسش
نیکوکاروں کی فراغت پر!
جہنم کی بھڑکتی آگ
جنت کی بشارت پر!
خدائے لم یزل کے رو برو
قائم عدالت پر !

یقیں میرا
یقیں تیرا
نہ تو کافر !
نہ میں کافر !!
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International