Today ePaper
Rahbar e Kisan International

قصوروار کون-ادارے یا نوجوان

Articles , Snippets , / Tuesday, July 22nd, 2025

rki.news

تحریر راجا ناصر محمود-قطر

خوش قسمتی سے پاکستان کی آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسِ وقت مُلک بھر میں تقریباً 79 فیصد شہری 40 سال سے کم عمر کے ہیں، جن میں سے 41 فیصد کی عمریں 15 سے 39 سال کے درمیان ہیں۔ اسی لئے وُہ مُلک جہاں بوڑھوں ،بزرگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ہمیں بڑی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کیونکہ کسی مُلک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی اُس کی معاشی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت دیتی ہے۔ اُصولاً تو ہمارے نوجوانوں کو بھی قومی تعمیر و ترقی کی دوڑ میں صفِ اول میں رہتے ہوئے بہت زیادہ متحرک اور فعال نظر آنا چاہیے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی منظر پیش کرتے ہیں جس سے ذہن میں کئی سوالات اُبھرتے ہیں ۔ کیا پاکستان نے واقعتاً نوجوانوں کے اِس جمِ غفیر کی موجودگی سے کوئی خاطر خواہ اُٹھایا ہے ؟ کیا نوجوانوں نے قومی ترقی میں ایک مثبت اور مثالی کردار ادا کیا ہے ؟ کیا وہ ملکی افرادی قوت کا ایک منظم اور قابلِ قدر حصہ بن پائے ہیں؟ اِن سوالات کا جواب کسی حد تک منفی اور پریشان کُن ہے کیونکہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب تک ریاستی اداروں کی بے حسی اور عدم توجہی کی وجہ سے قومی تعمیر و ترقی میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی اُن کی اکثریت مُلک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں سے
ہمارے قومی اداروں کی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے جاری مجرمانہ غفلت اور لا پروائی تمام باشعور اور سمجھ دار طبقے کے علم میں ہے۔ ہماری حکومتوں نے بنیادی پیشہ ورانہ اور ہنر پر مبنی تعلیم، ٹیکنالوجی کی تربیت اور تحقیق جیسے اہم شعبوں کو جان بوجھ کر ہمیشہ نظر انداز کیا ہےاور صرف رسمی اور روایتی تعلیم پر ہی تکیہ کیے جا رہی ہیں نتیجتاً نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے رسمی تعلیم کی کاغذ کے ٹکڑوں کی شکل میں اپنی ڈگریاں لیے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں ۔ بے روزگاری کی شرح تقریباً 5.47 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ صرف سال 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار پاکستانی بہتر مستقبل کی تلاش میں وطن چھوڑ گئے۔ قابل اور ذہین ترین نوجوانوں کا روزگار کی خاطر دوسرے ملکوں کا اتنی بڑی تعداد مین رخ کرنا اِس بات کا ثبوت ہے اپنے مُلک میں اُن کو اپنے روشن اور سنہرے مستقبل کی کوئی تعبیر نظر نہیں آ رہی ہے ۔
اِس کے علاوہ ہمارے ہاں سماجی ، سیاسی اور اخلاقی تربیت کے لیے قومی سطح پر کوئی ٹھوس اور جامع پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان منشیات، انتہاپسندانہ سوچ اور جرائم کی راہ پر چل نکلے ہیں ۔ حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ساڑھے 64 لاکھ سے زیادہ پاکستانی، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔ گلوبل کرائم انڈیکس میں پاکستان کا 83 واں نمبر ہے جو مُلک میں بڑھتی ہوئی قانون شکنی اور عدم تحفظ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پر پاکستان 193 ممالک میں 164 ویں نمبر پر ہے جِس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی رہنمائی، تربیت اور عملی زندگی کی تیاری کو کبھی ترجیح ہی نہیں دی گئی۔ یہ بات کسی بڑے المیے سے کم نہیں کہ مُلکی سطع پراِس وقت ہیومن ڈیولپمنٹ اور سماجی و اخلاقی ترقی کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پروگرام رائج نہیں ہے ۔
آج ہمارے نوجوانوں کو جن حالات اور مسائل کا سامنا ہے وُہ کسی حد تک خود بھی اُن کے ذمہ دار ہیں لیکن اِس کی بڑی ذمہ داری ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم اقتصادی عدم مساوات، سماجی مسائل اور دوسرے کئی تکلیف دہ رجحانات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو موجودہ حکومت کو فوراً نوجوانوں کے لیے قومی سطع پر ایک جامع اور قابلِ عمل پالیسی کو متعارف کرانا پڑے گا جو کہ نہ صرف نوجوانوں کو معاشی طور پر خود مختیار بنائے بلکہ اُنھیں ایک ذمہ دار اور بااخلاق شہری کے سانچے میں بھی ڈھالے۔ ہمارے نوجوانوں کی حقیقی ترقی تب ہی ممکن ہے جب وُہ پیشہ وارنہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنی اقدار ، اخلاقیات اور معاشرتی فرائض کو بھی اپنی ذات کا حصہ بنائیں ۔ بصورت دیگر ہم نوجوانوں کی صورت میں عطا کیے گئے قدرت کے ایک بڑے عطیے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ابھی وقت ہے کہ ہمارے قومی ادارے اپنی غفلت اور لاپرواہی کا خود احتساب کریں اور توبہ تائب ہو کر اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو عالمی رحجانات اور طلب کے مطابق یقینی بنائیں۔ آخر میں ایک گذارش یہ بھی ہے کہ آپ جب کبھی کہیں بھی کسی نوجوان کو کسی جُرم کا مرتکب، اخلاقی کمزوری، چوری چکاری یا کسی اور ناپسندیدہ عمل میں ملوث پائیں تو اُسے نفرت و حقارت سے دیکھنے سے پہلے اتنا ضرور سوچیں کہ اس سارے عمل میں زیادہ قصوروار کون ہے ؟
ہمارا یہ نوجوان یا قومی ادارے ؟


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International