تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

پاکستان کی تاریخ ایک نئے زاویے سے

Articles , Snippets , / Wednesday, October 16th, 2024

از قلم ۔۔۔۔۔۔ عامرمُعانؔ

آزادی کو 77 سال ہو گئے ہیں اور ان 77 سالوں میں ہر سال لاکھوں تحریریں ضبط تحریر میں آئی ہیں امیدیں دلاتیں یقین سکھاتیں عمل کی تلقین کرتیں اور محبت کا جذبہ اجاگر کرتیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ وطن ہماری پہچان ہے ہماری شان ہے ہماری آن ہے
نا امیدی کفر ہے اس لئے نا امیدی کا ذکر نہیں ہونا چاہئیے ہاں ہماری کوتاہیوں ہیں جس کے لئے ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم وہ غلطیاں دوبارہ نہ دھرائیں اور اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعائیں مانگیں کہ اس ملک کو ناقابل تسخیر بنا دے اور ہماری دعائیں مقبول فرما دے آمین
چلیں ہم آپ کو ایک نئے زاویے سے تاریخ پاکستان بتاتے ہیں پڑھئیے لیکن متفق ہونا ضروری نہیں ہے
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے سچ کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا سچ بولنے والا تنہا ہوتا ہے سچ ایک زہر ہے اور جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ جھوٹ ایک سراب ہے حقیقت سے چشم پوشی ہے لیکن سننے والا اس کے سحر میں ایسے گرفتار ہو جاتا ہے کہ اس کو اس کی پرواہ نہیں رہتی کہ یہ سب جھوٹ ہے اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔۔ آپ کسی کی جھوٹی تعریف کریں وہ آپ کا گرویدہ ہو جائے گا اور جیسے ہی سچ بولیں گے اس کی محفل میں آپ کے لئے جگہ کم پڑ جائے گی
اسی تناظر میں دل میں خیال آیا کہ ہم سچ بول بول کر پریشان ہو رہے ہیں تو کچھ دیر کے لئے سچ کے برعکس جھوٹ سوچ کر دیکھتے ہیں کہ منظر کتنا دلکش اور دلنشین محسوس ہوتا ہے
اب آپ سوچیں کہ آزادی سے لے کر اب تک تمام حکمرانوں نے روز و شب کی انتھک محنت سے مملکت خداداد کو اوج کمال تک پہنچانے میں پوری جانفشانی سے کام کیا اور آج اسی بدولت مملکت دنیا کے صف اول کے ممالک میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے ۔۔ کتنا خوش کن خیال ہے نا دل باغ باغ ہو گیا ہے
واہ واہ آئیے مزید سوچتے ہیں مملکت بنتے ہی ہم نے اتنی جانفشانی سے کام شروع کیا کہ جلدی جلدی ان تمام رہنماوں کو موقع دینے کی ٹھان لی جنہوں نے مملکت کے قیام مخں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اتنی جلدی جلدی موقع دئیے کہ چند لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اسی طرح موقع دیتے رہے تو پاکستان کی پوری آبادی ہی سابق وزراء پر مشتمل نہ ہو جائے اس لئے کچھ عرصے جمہوریت کو آرام دیا جائے اور وہ پھر تازہ دم ہو کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکیں بڑی بڑی اقوام ایسا نہ سوچ سکیں جو ہم نے سوچ کر اور عمل کر کے دکھا دیا
اب مملکت نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ حکمرانوں کو خیال آیا کہ اتنا ترقی یافتہ ایک ملک کیوں ہو تو ہم نے باہمی رضامندی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے نقشے پر ایک ملک کے دو بنا دئیے اور یوں دنیا میں ایک ملک کا اضافہ کر کے ہم نے دنیا پر احسان بھی کر دیا ورنہ یو این او کی تعداد کیسے بڑھتی ۔اب یو این او والے بھی ہمارا احسان ماننے لگے ہیں کہ ان کی خاطر ہم نے بہت بڑی قربانی دی ہے
اس کے بعد ہم سوچنے لگے کہ ملک کا نظام جو چل رہا ہے اس کو تھوڑا ماڈرن کر دیں تاکہ لوگوں کی تفریح طبع کا بھی انتظام ہو سکے اب اس پر آدھے خوش اور آدھے ناراض ہو کر ایک دوسرے کے لئے کھڈے کھودنے لگے تاکہ اگر کھڈا زیادہ گہرا ہوا تو پانی نکل آئے گا اور ملک کا فائدہ ہو جائے گا
پھر نئی صدی کی آمد آمد ہونے لگی ساری دنیا پریشان تھی کہ نئی صدی میں کیسے جائیں گے اور ہمیں پتہ تھا کہ سوتے ہوئے جائیں گے کہ ساری قوم تب تک 12 بجے سو جاتی تھی موبائل کا جھمیلا جو نہیں تھا اور نئی صدی میں ہم اس پروقار طریقے سے داخل ہوئے کہ امریکہ تک ہمارے بعد نئی صدی میں داخل ہوا اور کئی گھنٹے رشک سے دیکھتا رہا کہ یہ قوم تو ہم سے پہلے نئی صدی میں سوتے سوتے داخل ہو گئی ہے
ہمارے تمام حکمران اتنے ایماندار اور خدا ترس تھے کہ سب ان کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ دیکھو حکمران ہوں تو ایسے تمام ادارے اتنی جانفشانی اور محنت سے کام کرتے کہ دیگر تمام ممالک پریشان ہوتے کہ ہم کیسے اس ترقی کا مقابلہ کریں گے پھر اچانک مزید ترقی کا جذبہ ہمارے ایک لیڈر کے اندر ابھرا اور اس نے سب کو باور کروایا کہ یہ ترقی تو کچھ بھی نہیں اگر ہم آئے تو ترقی میں دن دوگنی اور رات چوگنی مزید ترقی ہو جائے گی اور یہ سب ایماندار حکمران اتنے ایماندار بھی نہیں ہیں جتنا میں ہوں اب سب نے سوچا کہ یہ تو آ کر پورے ملک میں دودھ کی نہریں بہا دے گا اس لئے اب صرف اسی کو لایا جائے اور تمام اداروں نے بھی سوچا کہ ہم کو مزید ترقی کے لئے ایسے ہی حکمران کی ضرورت ہے پھر اس کو ہار پہنا کر نیا حکمران بنایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مملکت خداداد نے اتنی مزید ترقی کی کہ یہ ملک دنیا کا سب سے سستا ملک بن گیا ہم۔دنیا کی قیمتیں اپنے پیسوں کا حساب لگا کر دیکھتے اور سب پر ہنستے کہ یہ سب تو بہت مہنگائی میں جی رہے ہیں بس ان کی تنخواہ اپنے پیسوں میں حساب نہیں کرتے تھے وہ کون سا ہم نے لینی ہوتی تھیں پھر سے ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پھیل گئیں لوگ خوشیوں سے جھومتے روز سڑکوں پر ناچنے آنے لگ گئے اور خوب جھولی اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے کہ اتنی ترقی پوری دنیا میں ہو جائے کہ وہ بھی ہماری طرح سستی اشیاء کا مزہ لیں
پھر اچانک پرانے محب وطن رہنماوں نے سوچا کہ ہم سب کو مل کر کاوش کرنی چاہئیے اور جتنی ترقی ہو گئی ہے اگر ہم اس سے بھی دوگنی ترقی کر دیں تو یہ عوام ہمیں خوب دعائیں دے گی … وہ پھر سے بر سر اقتدار آ گئے اور اب ہر چیز اتنی وافر مقدار میں ہو گئی ہے کہ لوگ خود حکومت کو کہتے ہیں کہ ہمیں گیس بجلی اتنی مل گئی ہے کہ اب بچت کی جائے کئی لوگ تو اس خوشی میں شادی ء مرگ کی کیفیت میں ہیں کہ پھر اٹھتے ہی نہیں اٹھائے جاتے ہیں
اتنی ترقی کے بعد اب سب سوچ رہے ہیں کہ مہنگے ملکوں کی طرف کوچ کر جائیں تاکہ وہاں کی مہنگائی کا لطف اٹھائیں اور ان کو مہنگا ہونے کا طعنہ بھی دے سکیں
ہائے اتنا خوش کن منظر ہے ملک میں ہر طرف امن ہی امن ہے اور دودھ کی نہریں نکلنے ہی والی ہیں بس انتظار کیجئیے لیکن اتنی خوشی میں شادی ء مرگ والی کیفیت نہ طاری کر بیٹھیے گا کہ آپ اس لذت سے محروم رہ جائیں جو دودھ کی نہریں نکلنے کے بعد ملنی ہے
ارے بس بہت خوش کن مناظر میں جی لئے اب واپس آ جائیں اور قائد اعظم کے فرمان کے مطابق امید کو جگاتے رہئیے اچھے مستقبل کا یقین کرتے رہئیے اور پاکستان کو عظیم ملک بنانے کے لئے عمل کا سہارا لیتے رہئیے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں
پاکستان زندہ باد


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International